بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بالغ بیٹے کی شادی کے اخراجات باپ پر لازم نہیں ہے۔


سوال

ایک بائیس سال کا نافرمان بیٹاجو اپنے والد کواپنی کمائی میں سے کچھ نہیں دیتا،بلکہ اپنے والد کاکافی نقصان کروایا ہےاور اپنے والد سے کہتاہے کہ آپ  کے اوپر میری شادی کروانے کا حق ہے۔

1۔کیا والد پر اپنے ایسے بیٹے کی شادی کروانے کا حق ہے؟

2۔کیا زندگی میں اس کو جائیداد میں سے کچھ دینا ضروری ہے؟

3۔کیا والد کے انتقال کے بعد اس کا میراث میں کوئی حصہ بنے گا یا نہیں؟

جواب

1۔بیٹے کے بالغ ہونے کے بعد( اگر وہ معذور نہ ہو اور کمانے کے قابل ہو تو) اس کا کسی بھی قسم کا خرچہ شرعاً والدین کے ذمہ نہیں رہتا،لہٰذا صورتِ مسئولہ میں بیٹے کے بالغ ہونے کے بعد اس کی مناسب جگہ پر شادی کی فکر وکوشش کرنا تو والدین کی ذمہ داری بنتی ہے، لیکن شادی کا خرچہ اور بیوی کا نفقہ والد کے ذمہ نہیں ہے، اس کا انتظام لڑکے کو خود کرنا ہوگا۔

2۔ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا خود مالک  ومختار ہوتا ہے، والد  کی زندگی میں اولاد وغیرہ کا اس کی جائیداد میں   کوئی حق  و حصہ  نہیں  ہوتا،  اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل  ہوتا، کیونکہ میراث کا تعلق آدمی کی وفات کے بعد کے زمانہ سے ہے،لہٰذا زندگی میں اپنی اولاد کو کچھ حصہ دینا ضروری نہیں ہے۔

3۔        البتہ والد کے انتقال کے بعد ان کی میراث میں ان کی تمام اولاد اپنے اپنے شرعی حصے کے بقدر شریک ہوتی ہے،  کسی ایک وارث کو میراث  سے محروم کرنا جائز نہیں ہے،بلکہ ہر وارث کو اس کا شرعی حق دینا ضروری ہو گا ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) يعم الانثى والجمع (الفقير) الحر، فإن نفقة المملوك على مالكه والغني في ماله الحاضر ... (وكذا) تجب (لولده الكبير العاجز عن الكسب) كأنثى مطلقاوزمن"

"(قوله لطفله) هو الولد حين يسقط من بطن أمه إلى أن يحتلم، ويقال جارية، طفل، وطفلة، كذا في المغرب. وقيل أول ما يولد صبي ثم طفل ح عن النهر (قوله يعم الأنثى والجمع) أي يطلق على الأنثى كما علمته، وعلى الجمع كما في قوله تعالى {أو الطفل الذين لم يظهروا} [النور: 31] فهو مما يستوي فيه المفرد والجمع كالجنب والفلك والإمام - {واجعلنا للمتقين إماما} [الفرقان: 74]- ولا ينافيه جمعه على أطفال أيضا كما جمع إمام على أئمة أيضا فافهم ... (قوله كأنثى مطلقا) أي ولو لم يكن بها زمانة تمنعها عن الكسب فمجرد الأنوثة عجز إلا إذا كان لها زوج فنفقتها عليه ما دامت زوجة وهل إذا نشزت عن طاعته تجب لها النفقة على أبيها محل تردد فتأمل، وتقدم أنه ليس للأب أن يؤجرها في عمل أو خدمة، وأنه لو كان لها كسب لا تجب عليه (قوله وزمن) أي من به مرض مزمن، والمراد هنا من به ما يمنعه عن الكسب كعمى وشلل، ولو قدر على اكتساب ما لا يكفيه فعلى أبيه تكميل الكفاية".

(مطلب في نفقة المطلقة،610/3،ط:ايچ ايم سعيد)

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:

"‌المادة (1192) - (‌كل ‌يتصرف ‌في ‌ملكه كيفما شاء . . . )

كل ‌يتصرف ‌في ‌ملكه المستقل كيفما شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش للغير. انظر المادة (1197) .

(الكتاب العاشر الشركات،الفصل الأول،201/3،ط:دار الجيل)

تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:   

‌"الإرث ‌جبري ‌لا ‌يسقط ‌بالإسقاط".

(كتاب الدعوى ،باب التحالف،116/8،ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100242

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں