بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بالغ بیٹے کی شادی کے اخراجات کس کے ذمہ ہیں؟


سوال

 بالغ بیٹے  کی شادی کرانا باپ پر بیٹے کا وجوبی حق ہے یا باپ کی جانب سے اس پر  احسان ہے؟

نیز  کیا بالغ بیٹا اپنا یہ حق  باپ سے  مانگنے کے لیے قاضی کی عدالت میں جاسکتا ہے یا نہیں؟

مفصل باحوالہ جواب کی درخواست ہے ۔

جواب

بیٹے کے بالغ ہو جانے کے بعد( اگر وہ معذور نہ ہو اور کمانے کے قابل ہو تو) اس کا کسی بھی قسم کا خرچہ شرعاً والد کے ذمہ واجب  نہیں ہوتا، البتہ بیٹی کی جب تک شادی نہ ہوجائے، اس وقت تک اس کے تمام اخراجات  والد کی حیثیت کےمطابق اس پر  واجب ہوتے ہیں، جس میں بیٹی کی شادی کی ذمہ داری بھی داخل ہے۔

تاہم  بیٹے کے بالغ ہونے کے بعد اس کی مناسب جگہ شادی کی فکر وکوشش کرنا والدین کی شرعی ذمہ داری ہے، ، اور مناسب رشتہ مل جانے کے بعد  بلا وجہ  اس میں کسی قسم کی روکاوٹ ڈالنے کی شرعا اجازت نہیں، البتہ بیٹے کی شادی کے اخراجات اٹھانا شرعا والد پر واجب  نہیں ہے،  اس  کی ذمہ داری بالغ بیٹے پر ہی ہے، لہذا صورت مسئولہ میں  بیٹا اپنی شادی کے اخراجات  اٹھانے کا مطالبہ اپنے والدین سے  شرعا نہیں کر سکتا، اور نہ ہی قاضی وقت والدین کو ان اخراجات کی ادائیگی پر مجبور کر سکتا ہے، البتہ اگر والدین اپنے بیٹے  کی شادی کے اخراجات میں  برضا و خوشی اپنی استطاعت کے مطابق تعاون کرنا  چاہیں، تو کر سکتے ہیں، یہ ان کی طرف سے اپنے بیٹے  پر  تبرع و احسان ہوگا،  اور ان کا یہ عمل  باعثِ اجر و ثواب ہوگا۔

شعب الإيمان للبيهقي میں ہے:

"٨٢٩٩ - أخبرنا علي بن أحمد بن عبدان، أنا أحمد بن عبيد، نا إسحاق بن الحسن الحربي، نا مسلم بن إبراهيم، نا شداد بن سعيد عن الجريري، عن أبي نضرة، عن أبي سعيد، وابن عباس  - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ولد له ولد فليحسن اسمه وأدبه فإذا بلغ فليزوجه فإن بلغ ولم يزوجه فأصاب إثما فإنما إثمه على أبيه»."

( حقوق الأولاد و الأهلين، ١١ / ١٣٧، ط: مكتبة الرشد للنشر والتوزيع بالرياض )

 مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

" (فليزوجه) وفي معناه التسري (إن بلغ) أي: وهو فقير (ولم يزوجه) أي: الأب وهو قادر (فأصاب) أي: الولد (إثما) أي: من الزنا ومقدماته (فإنما إثمه على أبيه) أي: جزاء الإثم عليه لتقصيره وهو محمول على الزجر والتهديد للمبالغة والتأكيد، قال الطيبي - رحمه الله -: أي جزاء الإثم عليه حقيقية ودل هنا الحصر على أن لا إثم على الولد مبالغة لأنه لم يتسبب لما يتفادى ولده من أصابه الإثم."

( كتاب النكاح، باب الولي في النكاح و استئذان  المرأة، ٥ / ٢٠٦٤، ط: دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و نفقة الإناث واجبة مطلقًا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال، كذا في الخلاصة.

و لايجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن الولد يكون عاجزًا عن الكسب لزمانة، أو مرض و من يقدر على العمل لكن لايحسن العمل فهو بمنزلة العاجز، كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ١ / ٥٦٢، ط: دار الفكر)

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحرمیں ہے:

"(و نفقة البنت بالغة) أو صغيرة و لم يذكرها لإغناء الطفل (والابن) البالغ (زمنًا) بفتح الزاي و كسر الميم أي الذي طال مرضه زمانًا كما في المغرب أو الذي لايمشي على رجليه كما في المذهب و كذا أعمى و أشل و غيرهما فقير تجب (على الأب خاصة و به يفتى) هذا ظاهر الرواية."

( باب النفقة، نفقة البنت بالغة أو صغيرة، ١ / ٤٩٨، ط: دار إحياء التراث العربي)

المبسوط للسرخسی  میں ہے:

"و الذي قلنا في الصغار من الأولاد كذلك في الكبار إذا كن إناثًا؛ لأنّ النساء عاجزات عن الكسب؛ و استحقاق النفقة لعجز المنفق عليه عن كسبه، و إن كانوا ذكورًا بالغين لم يجبر الأب على الإنفاق عليهم لقدرتهم على الكسب، إلا من كان منهم زمنًا، أو أعمى، أو مقعدًا، أو أشل اليدين لاينتفع بهما، أو مفلوجًا، أو معتوهًا فحينئذ تجب النفقة على الوالد لعجز المنفق عليه عن الكسب، و هذا إذا لم يكن للولد مال فإذا كان للولد مال فنفقته في ماله؛ لأنه موسر غير محتاج و استحقاق النفقة على الغني للمعسر باعتبار الحاجة إذ ليس أحد الموسرين بإيجاب نفقته على صاحبه بأولى من الآخر."

(كتاب النكاح، باب نفقة ذوي الأرحام، ٥ / ٢٢٣، ط: دار المعرفة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403102297

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں