میں اپنے شوہر سے اس کے مظالم (ذہنی وجسمانی تشدد) سے تنگ آکر خلع لے چکی ہوں، اس شوہر سے میرے تین بچے (ایک بیٹا، دوبیٹی) ہیں، خلع کے بعد کورٹ کے فیصلے کے مطابق میرے تینوں بچے (جو اس وقت نابالغ تھے) میرے شوہر کو دے دیے گئے، اس کے بعد میرے بھائی نے میری شادی دوسری جگہ کروا دی، اس شوہر سے میری کوئی اولاد نہیں ہے، اور آئندہ بھی اولاد کی کوئی امید نہیں ہے، اب میرے تینوں بچے بالغ ہو چکے ہیں، میرا سابق شوہر میری بیٹیوں کے ساتھ بھی وہی سلوک کر رہا ہے جو میرے ساتھ کیا کرتا تھا، وہ نشہ کر کے میری بیٹیوں پر انتہائی ظلم و تشدد کرتا ہے، گالیاں دیتا ہے، جان سے مار نے کی دھمکی دیتا ہے، اور گھر میں دونوں بیٹیوں کو تالا لگا کر باپ بیٹا دونوں کئی کئی دنوں تک کہیں چلے جاتے ہیں، ان سب مظالم کی وجہ سے میری بیٹیاں ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو چکی ہیں اور خود کشی کی طرف مائل ہورہی ہے،میری ان سے فون میں بات ہوتی ہے، وہ میرے ساتھ رہنا چاہتی ہیں، اور میرا موجودہ شوہر بھی انہیں میرے ساتھ رکھنے پر راضی ہے، حتی کہ وہ میری بچیوں کے اخراجات بھی اٹھانے پر راضی ہے۔
واضح رہے کہ میرا موجودہ شوہر کے ساتھ میرے بچیوں کا کوئی خونی رشتہ نہیں ہے۔
دریافت طلب مسئلہ یہ ہے :
کیا میں اپنی بالغہ بچیوں کو اپنے ساتھ رکھ سکتی ہوں جب کہ میرا شوہر بھی راضی ہے؟ قرآن وسنت کی روشنی میں میری رہنمائی فرمائیں۔
واضح رہے کہ زجین کے درمیان علیحدگی کی صورت میں لڑکے کی عمر سات سال اور لڑکی کی عمر نو سال ہونے تک پرورش کا حق بچوں کی ماں کو حاصل ہوتا ہے، مذکورہ عمر کے بعد بلوغت تک دونوں کی تربیت کا حق باپ کو حاصل ہوتا ہے، بلوغت کے بعد بچوں کو اختیار ہوتا ہے کہ ماں باپ میں سے جس کے پاس بھی رہنا چاہیں رہ سکتے ہیں۔
تاہم اگر بچوں کا باپ ایسا فاسق ہو کہ اس کے فسق کا ضرر بچوں پر پڑنے اور ان کی تربیت خراب ہونے کا قوی اندیشہ ہو تو اس کا حقِ تربیت ساقط ہو جاتا ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ دونوں بالغہ لڑکیاں اپنے والد کے ظلم و تشدد کی بناء پر اپنی والدہ(سائلہ) کے پاس جانا چاہتی ہیں تو سائلہ اپنے موجودہ شوہر کی اجازت کے ساتھ دونوں بیٹیوں کو اپنے پاس رکھ سکتی ہے۔
نیز ان دونوں لڑکیوں کانان نفقہ شادی تک ان کے والد پر لازم ہے چاہے وہ لڑکیاں اپنے والد کے پاس رہیں یا والدہ کے پاس ، بہر صورت ان کے نان نفقہ کی ادائیگی ان کے والد پر لازم ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(ولا خيار للولد عندنا مطلقا) ذكرا كان، أو أنثى خلافا للشافعي. قلت: وهذا قبل البلوغ، أما بعده فيخير بين أبويه، وإن أراد الانفراد فله ذلك مؤيد زاده معزيا للمنية."
"(قوله: ولا خيار للولد عندنا) أي إذا بلغ السن الذي ينزع من الأم يأخذه الأب، ولا خيار للصغير لأنه لقصور عقله يختار من عنده اللعب، وقد صح أن الصحابة لم يخيروا. وأما حديث «أنه صلى الله عليه وسلم خير فلكونه قال: اللهم اهده» فوفق لا اختيارا لا نظر بدعائه عليه الصلاة والسلام، وتمامه في الفتح".
(كتاب الطلاق، باب الحضانة، ج:3، ص:567، ط:سعید)
الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ میں ہے
"الأمانة في الدين، فلا حضانة لفاسق، لأن الفاسق لا يؤتمن، والمراد: الفسق الذي يضيع المحضون به، كالاشتهار بالشرب، والسرقة، والزنى واللهو المحرم، أما مستور الحال فتثبت له الحضانة. قال ابن عابدين: الحاصل أن الحاضنة إن كانت فاسقة فسقا يلزم منه ضياع الولد عندها سقط حقها، وإلا فهي أحق به إلى أن يعقل الولد فجور أمه فينزع منها."
(الحضانة، ما يشترط فيمن يستحق الحضانة ، ج:17، ص:306، ط:طبع الوزارة)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"و نفقة الإناث واجبة مطلقًا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال، كذا في الخلاصة."
(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ج:1، ص:562، ط: دار الفكر)
المبسوط للسرخسی میں ہے:
"و الذي قلنا في الصغار من الأولاد كذلك في الكبار إذا كن إناثًا؛ لأنّ النساء عاجزات عن الكسب؛ و استحقاق النفقة لعجز المنفق عليه عن كسبه، و إن كانوا ذكورًا بالغين لم يجبر الأب على الإنفاق عليهم لقدرتهم على الكسب، إلا من كان منهم زمنًا، أو أعمى، أو مقعدًا، أو أشل اليدين لاينتفع بهما، أو مفلوجًا، أو معتوهًا فحينئذ تجب النفقة على الوالد لعجز المنفق عليه عن الكسب، و هذا إذا لم يكن للولد مال فإذا كان للولد مال فنفقته في ماله؛ لأنه موسر غير محتاج و استحقاق النفقة على الغني للمعسر باعتبار الحاجة إذ ليس أحد الموسرين بإيجاب نفقته على صاحبه بأولى من الآخر."
(كتاب النكاح، باب نفقة ذوي الأرحام، ج:5، ص:223، ط: دار المعرفة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601100886
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن