بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بالغ ورثاء کا قاتل کو معاف کردینا اور تقسیم میراث


سوال

 ۔۔۔ ایکسڈنٹ کے نتیجے میں وفات پا چکے ہیں، متوفی کے ورثاء میں والدین ،ایک بیوہ، اور دو نا بالغ بیٹے اور  ایک نابالغہ بیٹی  شامل ہیں ،متوفی کی بیوہ اوروالدین نے ملزم کو فی سبیل اللہ معاف کر کے بخش دیا ہے،

1۔ کیامتوفی کے ورثاء میں سے صرف بالغ ورثاء کی جانب سے ملزم کومعاف کرنے کی صورت میں ملزم بری الذمہ ہوگیا ہے، یا ملزم بحق نابالغ ورثاء دیت کی ادائیگی کا پابند ہے؟

2۔ مذکورہ  ورثاء کے  حصص کا تعین فرمائیے۔

جواب

1۔ڈرائیور  اگر  بلاارادہ غلطی  سے ایکسیڈنٹ کے ذریعہ اپنی سواری کے علاوہ کسی دوسرے کو قتل کردے تو یہ قتلِ خطا ہے اور  اس کی وجہ سے کفارہ اور دیت دونوں لازم ہوں گے  (بشرط یہ کہ ایکسیڈنٹ ڈرائیور کی غلطی کی وجہ سے ہوا ہو)۔ لیکن اگر مقتول کے بالغ ورثاء نے برضا ورغبت دیت معاف کردی تو دیت معاف ہوگئی،  لیکن نابالغ ورثا  کا حق معاف نہیں ہوا اس لیے نابالغ لڑکے کو دیت کا حصہ ملے،البتہ  کفارے  کے طور پر بہرصورت  اس ڈرائیور کو مسلسل ساٹھ روزے رکھنے پڑیں گے۔

صورتِ مسئولہ میں بالغ افراد کی طرف سے دیت معاف کرنے سے دیت میں سے صرف ان کا حق ساقط ہوا، نابالغ ورثہ کا حصہ ساقط نہ ہوا، لہذا قاتل کے ذمہ نابالغ ورثاء کو ان کے حصے کے بقدر دیت ادا کرنا لازم ہوگی ۔

2۔ صورتِ مسئولہ میں  مرحوم کی  میراث کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے   مرحوم کے  حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنےکے بعد اگرمرحوم کے ذمہ کوئی قرضہ  ہو تو اسے کل مال سے ادا کرنےکے  بعد اور اگر مرحوم  نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسےباقی مال کے  ایک تہا ئی حصے  میں نافذ کرنے کے بعد باقی کل منقولہ وغیر منقولہ ترکہ  کو120حصوں میں تقسیم کرکے 15حصے بیوہ کو ، 20 حصے والد کو 20 حصے والدہ کو، 26 حصے ہر ایک بیٹے کو اور 13 حصے بیٹی کو ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہوگی:

میت: والد۔ مسئلہ : 24 / 120 

بیوہوالدوالدہبیٹا بیٹابیٹی
34413
152020262613

یعنی فیصد کے اعتبار سے 100 روپے میں سے 12.50 روپے مرحوم کی بیوہ کو، 16.6666 روپے والد کو ، 16.6666 روپے والد ہ کو ، 21.6666 روپے ہر ایک بیٹے کو 10.8333 روپے بیٹی کو ملیں گے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: والصبي كالمعتوه) أي إذا قتل قريب الصبي فلأبيه ووصيه ما يكون لأبي المعتوه ووصيه فلأبيه القود والصلح لا العفو وللوصي الصلح فقط، وليس للأخ ونحوه شيء من ذلك إذ لا ولاية له عليه كما قررناه في المعتوه، وفي الهندية عن المحيط: أجمعوا على أن القصاص إذا كان كله للصغير ليس للأخ الكبير ولاية الاستيفاء، ويأتي تمامه قريباً. [تتمة] أفتى الحانوتي بصحة صلح وصي الصغير على أقل من قدر الدية إذا كان القاتل منكراً ولم يقدر الوصي على إثبات القتل قياساً على المال لما في العمادية من أن الوصي إذا صالح عن حق الميت أو عن حق الصغير على رجل، فإن كان مقراً بالمال أو عليه بينة أو قضي عليه به لايجوز الصلح على أقل من الحق، وإن لم يكن كذلك يجوز اهـ".

(‌‌‌‌كتاب الجنايات، فصل فيما يوجب القود وما لا يوجبه، 6 / 539، ط: سعيد)

فتاوی عالمگیری   میں ہے:

"إن كان القتل خطأً ، فإن كان الشريك الكبير أباً كان له أن يستوفي جميع الدية حصة نفسه بحكم الملك وحصة الصغير بحكم الولاية، وإن كان الشريك الكبير أخاً أو عماً، ولم يكن وصياً للصغير يستوفي حصة نفسه، ولايستوفي حصة الصغير، كذا في المحيط".

(كتاب الجنايات، الباب الثامن في الديات، 6 / 24، ط: دار الفكر بيروت)

تکملة فتح الملهم میں ہے:

"ثم لم یذکر الفقهاء حکم السیارة لعدم وجودها في عصرهم. والظاهر أن سائق السیارة ضامن لما أتلفته في الطریق ، سواء أتلفته من القدام أو من الخلف. و وجه الفرق بینها و بین الدابة علی قول الحنفیة أن الدابة متحرکة بإرادتها، فلاتنسب نفحتها إلی راکبها، بخلاف السیارة، فإنها لاتتحرك بإرادتها ، فتنسب جمیع حرکاتها إلی سائقها، فیضمن جمیع ذلك، والله سبحانه و تعالیٰ أعلم".

(کتاب الجنایات، ج: 2، ص: 523،  ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502102414

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں