بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بالغ ہونے کے بعد والد کے کرائے ہوئے نکاح سے انکار کا حکم


سوال

بلوغت سے بہت پہلے تقریبا تین چارسال  کی عمر میں میری شادی میرے والدین نے کی تھی، بالغ ہونے سے لے کر اب تک بدستور میں انکار کرتا رہا ،اور اس پر عدم  رضامندی ظاہر کرتا رہا ،اب تقریبا دو ہفتہ قبل ہمارے بڑوں نے میرے حق میں فیصلہ کر لیا اور یہ نکاح ختم کر دیا گیا، رخصتی سے پہلے ہی شرعاً بڑوں کے اس فیصلے کے مطابق ہمارا یہ نکاح ختم ہوگیا ہے یا مزید کسی کاروائی کی ضرورت ہے؟ میں نے اپنے بڑوں کو بھیج کر ان سے کہا کہ ہمارا نکاح ختم کر دو، چنانچہ انہوں نے ہمارا نکاح ختم کر دیا، اس پر تحریری فتویٰ کی صورت میں جواب دے کر ممنون فرمائیں ۔

 

جواب

اگر کسی نابالغ کا نکاح بچپن میں اس کے والد اور دادا کے علاوہ کوئی اور فردکروائے تو بلوغت کے بعد  اسے نکاح کے فسخ کااختیار ہوتاہے،البتہ اگر والد یادادا بچپن میں کسی کا نکاح کروادیں تو شرعی طور پر خیارِ بلوغ (یعنی بلوغت کے بعد اس نکاح کے فسخ کااختیار)حاصل نہیں ہوتا، اگرچہ والد، یادادا کاانتقال ہوجائے۔ 

رشتہ کے سلسلہ میں اولاد کو چاہیے کہ والدین کو اپنا خیرخواہ سمجھتے ہوئے ان کی پسند کو  اپنی پسند پر ترجیح دیں، اس لیے کہ عموماً والدین اور بزرگوں کے طے کردہ رشتے آگے چل کر خوش گوار ثابت ہوتے ہیں، ممکن ہے کہ ایک چیز فی الحال ناپسند ہو، لیکن بعد میں وہ خیر اور محبت کا ذریعہ بن جائے، اور جو رشتے  وقتی جذبات  سے مغلوب ہوکر کیے جاتے ہیں، تجربہ شاہد ہے کہ عموماً وہ ناپائیدار ہوتے ہیں، وقتی پسند بعد میں ناپسندیدگی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

  لہذا صورتِ  مسئولہ میں  جب سائل کا نکاح  اس کے والد نے بچپن  میں کرا دیا  تھا تو شرعی طور پر اس کا نکاح  نافذ ہو گیا ،اب وہ  نکاح بر قرار ہے،سائل کے بڑوں کے ختم کرنے سے نکاح ختم نہیں ہوا، البتہ جب سائل  عاقل بالغ ہے  تو خود طلاق دے دے گاتو  وہ  واقع  ہوجائے  گی اور  پھر  نکاح ختم  ہوجائے  گا۔

البحرالرائق میں ہے :

"( قوله: ولهما خيار الفسخ بالبلوغ في غير الأب والجد بشرط القضاء) أي للصغير والصغيرة إذا بلغا وقد زوجا، أن يفسخا عقد النكاح الصادر من ولي غير أب ولا جد بشرط قضاء القاضي بالفرقة، وهذا عند أبي حنيفة ومحمد رحمهماالله ... بخلاف ما إذا زوجها الأب والجد؛ فإنه لا خيار لهما بعد بلوغهما؛ لأنهما كاملا الرأي وافرا الشفقة فيلزم العقد بمباشرتهما كما إذا باشراه برضاهما بعد البلوغ".

(كتاب النكاح،باب في الأولياء و الأكفاء،128/3،ط:دار الکتاب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100837

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں