بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بالغ اولاد کا خرچ والد پر کب تک لازم ہے ؟


سوال

اگر باپ اچھا خاصا دولت مند ہو ۔ اور بیٹے کی شادی کرنے کے بعد بھی اسے جائیدا میں سے حصہ نہ دے اور ان کو آزاد بھی نہ کرے ، خرچہ بھی لگا بندھا دے ، بیٹے کی عمر 40 سے بھی اوپر ہو ، تو بیٹا کیا کرے ؟

جواب

واضح رہے کہ بلوغت کے بعد جب تک اولاد   کمانے کے قابل نہ ہو،  اور بیٹی کی جب تک شادی نہ ہوجائے ،ان کے نفقہ کی ذمہ داری شرعاً  والد پر ہی ہوتی ہے،لیکن  اگر نرینہ اولاد معذور نہ ہو اور کمانے کے قابل بھی ہو تو بیٹے کے بالغ ہونے کے بعد اس کی مناسب جگہ پر شادی کی فکر وکوشش کرنا تو والدین کی ذمہ داری بنتی ہے، لیکن شادی کا خرچہ اور بیوی کا نفقہ والدین کے ذمہ نہیں ہے، اس کا انتظام لڑکے کو خود کرنا ہوگا۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں والد  اور بیٹے دونوں کو چاہیے کہ کسبِ حلال کی بھرپور کوشش کریں اور بیٹے کو اپنی نگرانی میں ہر جائز اور حلال کمائی کرنے کا موقع فراہم کریں اور  ہر قسم کی جائز اور حلال تدبیر کریں کہ بیٹے کی حلال کمائی کا سلسلہ شروع ہوجائے ، تاہم جب تک کوئی ترتیب نہیں بن جاتی اور والد کی استطاعت بھی ہو تو والد کو چاہیے کہ بیٹے کی جائز ضروریات کا خرچہ خوش دلی سے اُٹھائیں،  یہ ان کے لیے باعثِ اجر و ثواب ہوگا۔

اگر بیٹا خود مختاری کے ساتھ زیادہ بہتر کما سکتاہے تو والد پر اس کا خرچہ لازم نہیں ہوگا، ایسی صورت میں بیٹے کو چاہیے کہ مناسب تدبیر سے خود کفالتی کی طرف قدم اٹھالے، اور والد کے حقوق کا خیال بھی رکھتا رہے، نیز والد کی جائیداد چوں کہ والد کی ملکیت ہے، لہٰذا جب تک وہ حیات ہیں اولاد کو اس میں سے حصہ مانگنے کا حق نہیں ہوتا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الذكور من الأولاد إذا بلغوا حد الكسب و لم يبلغوا في أنفسهم يدفعهم الأب إلى عمل ليكسبوا أو يؤاجرهم و ينفق عليهم من أجرتهم وكسبهم، و أما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل أو خدمة، كذا في الخلاصة". (١/ ٥٦٢)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 612):

"(وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) يعم الأنثى والجمع (الفقير) الحر ... (وكذا) تجب (لولده الكبير العاجز عن الكسب) كأنثى مطلقاً وزمن.

(قوله: لطفله) هو الولد حين يسقط من بطن أمه إلى أن يحتلم، ويقال: جارية، طفل، وطفلة، كذا في المغرب. وقيل: أول ما يولد صبي ثم طفل ح عن النهر (قوله: يعم الأنثى والجمع) أي يطلق على الأنثى كما علمته، وعلى الجمع كما في قوله تعالى: {أو الطفل الذين لم يظهروا} [النور: 31] فهو مما يستوي فيه المفرد والجمع كالجنب والفلك والإمام - {واجعلنا للمتقين إماما} [الفرقان: 74]- ولاينافيه جمعه على أطفال أيضاً كما جمع إمام على أئمة أيضاً فافهم.... (قوله: كأنثى مطلقاً) أي ولو لم يكن بها زمانة تمنعها عن الكسب فمجرد الأنوثة عجز إلا إذا كان لها زوج فنفقتها عليه ما دامت زوجة ... (قوله: وزمن) أي من به مرض مزمن، والمراد هنا من به ما يمنعه عن الكسب كعمى وشلل، ولو قدر على اكتساب ما لايكفيه فعلى أبيه تكميل الكفاية".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201943

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں