بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بالی گوما نامی بستی میں جمعہ کی نماز کا حکم


سوال

 ایک بستی بالی گوماہے، جس کی آبادی تقریباً مردم شماری کے اعتبار سے( 1500) ہے، اور اس بستی میں ایک عالی شان مسجد بھی ہےاور چار دوکان ہیں، جس میں آٹا چاول نمک وغیرہ مل جاتے ہیں، البتہ ایک کلو میٹر دور کولابیرانام کی ایک بستی ہے جہاں ضرورت کا سارا سامان تقریبا مل جاتاہے ،اوربالی گوما بستی میں دو کمپنی بھی ہے جس کےسامنےدوتین ہوٹل اور ایک پان کی دوکان بھی ہے، سرکاری کاغذات میں ایک کلومیٹردوراورپچاس ساٹھ گھر آباد ہیں جو بالی گوماہی ہے اِس بالیگوماجہاں مسلمان اورمسجدہےاورایک کلومیٹردوروالابالیگوماکےدرمیان جہاں غیرمسلم ہیں ایک سڑک ہے،دونوں بالیگوماکےدرمیان سڑک کنارےایک قبرستان ایک کمپنی اورچندمکان ہیں یعنی یہ سلسلہ دوسرےبالیگوماتک ہے،  دریافت طلب امریہ ہے کہ  اس بستی میں جمعہ کی نماز جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ احناف کے اصل مذہب کے مطابق جمعہ تین جگہ پڑھنا صحیح ہوتاہے :

1.شہر۔ 2.قصبہ یعنی بڑاگاؤں جس میں شہر کی طرح جملہ ضروریاتِ زندگی ملتی ہوں ۔3. فناء شہریافناءِقصبہ یعنی شہریاقصبہ کے متعلقہ مضافات۔

ان کے علاوہ چھوٹے گاؤں اوردیہات میں جمعہ پڑھناحنفیہ رحمہم اللہ کے ہاں جائزنہیں،ہاں اگرحکومت وہاں جمعہ قائم کرنے کاحکم کرے توپھر جمعہ پڑھناصحیح ہوجاتاہے۔ 

اس تمہید کے آپ کے سوال کاجواب درج ذیل ہے : 

سوال میں مذکورجگہ کےجوحالات لکھے گئے ہیں ان کی روسے نہ تویہ جگہ شہر ہے کہ اس بناء پر وہاں جمعہ کی نماز پڑھناصحیح ہوجائے اورنہ ہی کسی شہریابڑے گاؤں کے فناء کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہ جگہ کسی شہر یابڑے گاؤں کی مصالح اورضروریات کے لئے نہیں ،لہذااس بناء پربھی اس جگہ جمعہ قائم کرنے کوجائزنہیں کہاجاسکتا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق قال أبو القاسم: هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة لأن هذا مجتهد فيه فإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات والظاهر أنه أريد به الكراهة لكراهة النفل بالجماعة؛ ألا ترى أن في الجواهر لو صلوا في القرى لزمهم أداء الظهر، وهذا إذا لم يتصل به حكم، فإن في فتاوى الديناري إذا بني مسجد في الرستاق بأمر الإمام فهو أمر بالجمعة اتفاقا على ما قال السرخسي اهـ فافهم والرستاق القرى كما في القاموس."

(کتاب الصلوۃ، باب صلوۃ الجمعة، ج:2، ص:138، ط:ایچ ایم سعید)

فتح القدیر للکمال ابن الہمام میں ہے:

"لاتصح الجمعة إلا في مصر جامع ، أو في مصلى المصر ، و لاتجوز في القرى)؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: { لا جمعة و لا تشريق و لا فطر و لا أضحى إلا في مصر جامع } و المصر الجامع : كل موضع له أمير و قاض ينفذ الأحكام و يقيم الحدود، و هذا عند أبي يوسف رحمه الله، و عنه أنهم إذا اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم، و الأول اختيار الكرخي و هو الظاهر، و الثاني اختيار الثلجي، و الحكم غير مقصور على المصلى بل تجوز في جميع أفنية المصر؛ لأنها بمنزلته في حوائج أهله.

(قوله: و هو الظاهر) أي من المذهب. و قال أبو حنيفة : المصر بلدة فيها سكك وأسواق وبها رساتيق ووال ينصف المظلوم من الظالم وعالم يرجع إليه في الحوادث، و هذا أخص مما اختاره المصنف، قيل: و هو الأصح، و إذا كان القاضي يفتي و يقيم الحدود أغنى من التعدد : و قد وقع شك في بعض قرى مصر مما ليس فيها وال و قاض نازلان بها، بل لها قاض يسمى قاضي الناحية وهو قاض يولى الكورة بأصلها فيأتي القرية أحيانا فيفصل ما اجتمع فيها من التعلقات وينصرف ووال كذلك ، هل هو مصر نظرًا إلى أن لها واليًا و قاضيًا أو لا نظرا إلى عدمها منهما؟والذي يظهر اعتبار كونهما مقيمين بها وإلا لم تكن قرية أصلا ، إذ كل قرية مشمولة بحكم.وقد يفرق بالفرق بين قرية لا يأتيها حاكم يفصل بها الخصومات حتى يحتاجون إلى دخول مصر في كل حادثة لفصلها ، وبين ما يأتيها فيفصل فيها ، وإذا اشتبه على الإنسان ذلك ينبغي أن يصلي أربعا بعد الجمعة ينوي بها آخر فرض أدركت وقته ولم أؤده بعد ، فإن لم تصح الجمعة وقعت ظهره وإن صحت كانت نفلا ، وهل تنوب عن سنة الجمعة ؟ قدمنا الكلام في باب شروط الصلاة فارجع إليه."

(کتاب الصلوۃ، باب الجمعة، ج:3، ص:202، ط: دارالفکر)

     فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144207201260

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں