بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 ربیع الاول 1446ھ 21 ستمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بلی دینے کے لیے لائے گئے بکرے خرید کر قربانی کرنے کا حکم


سوال

زید کسی بابا کے پاس پہنچا، اور جا کر یہ کہا کہ میرے اوپر جنات کا سایہ ہے، بابا نے کہا دو بکروں کی بلی دینی پڑے گی خرید  کر لاؤ زید دو بکرے خرید لایا بلی دینے کے لیے،  بابا عمل کر ہی رہا تھا کہ بابا کا انتقال ہو گیا،  اب زید بجائے ان بکروں کی بلی دینے کے عمر کے ہاتھ فروخت کر دیتا ہے،  اور عمر قربانی کے لیے اس سے بکروں کو خرید لایا، اب معلوم یہ کرنا ہے کہ ان بکروں کی قربانی جائز ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب تک زید نے بکرے کسی کو (اللہ کے نام پر برائے دفعِ حاجت یا ویسے ہی)  نہیں دیئے تب تک وہ زید کی ملکیت میں تھے،  زید کا  اپنے ان بکروں کو فروخت کرنا جائز تھا۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں عمر نے زید سے جب بکرے خرید لیے تو عمر کی ملکیت میں (بھی) آگئے، اور عمر کا ان بکروں کو ذبح کر کے  قربانی  کرنا بالکل درست ہے۔

"الفقه الإسلامي وأدلته" ميں ہے:

"الملك: اختصاص بالشيء يمنع الغير منه، ويمكن صاحبه من التصرف فيه ابتداء إلا لمانع شرعي.

فإذا حاز الشخص مالاً بطريق مشروع أصبح مختصاً به، واختصاصه به يمكنه من الانتفاع به والتصرف فيه إلا إذا وجد مانع شرعي يمنع من ذلك كالجنون أو العته أو السفه أو الصغر ونحوها. كما أن اختصاصه به يمنع الغير من الانتفاع به أو التصرف فيه إلا إذا وجد مسوغ شرعي يبيح له ذلك كولاية أو وصاية أو وكالة.....ويعود له الحق بالتصرف عند زوال المانع أو العارض."

(القسم الثاني الفصل الثالث‌‌، المطلب الأول ـ تعريف الملكية والملك، 4 / 56، ط:دار الفکر)

فقط واللہ اَعلم


فتوی نمبر : 144512100149

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں