بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 جُمادى الأولى 1446ھ 12 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر کسی وجہ کے طلاق کا مطالبہ کرنا درست نہیں


سوال

میری اہلیہ ایک دینی مدرسے میں تقریبا نو سال سے حفظ کلاس پڑھارہی ہے ایک سال سے مدرسے میں کچھ خامیاں نظر  آنے کی وجہ سے میں نے  مدرسہ جانے سے منع کردیا تو کہنے لگی میں نے بہت محنت کی ہے بچوں پر  مجھے وفاق کے امتحان تک پڑھانے کی اجازت دے دیں اور میں نے اجازت دیدی جس دن وفاق کا امتحان ہونا تھا اس سے ایک دن پہلے مجھے آ کر کہنے لگی کہ میں نے مدرسہ چھوڑ دیا ہے کل سے مدرسہ نہیں جاؤں گی ،اسی دن شام کومیری اہلیہ کی والدہ بہنوئی  بھائی آکر میری اھلیہ کو یہ کہہ کر لے گئے کہ اسکی طبیعت خراب ہے دو تین دنوں کیلئے لے کے جا رہے ہیں اور لے گئے میری اجازت کے بغیر،  ہماری شادی کو تقریبا ساڑھے دس سال ہوگئے ہیں ہماری زندگی میں کوئی بھی مسئلہ مسائل نہیں ہے ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے میرے سسرال والے طلاق مانگ رہے ہیں تقریبا چار مہینے سے وہ گھر میں بیٹھی ہوئی  ہے  مجھے میری اہلیہ سے ملنے بھی نہیں دیا جا رہا ہے۔

 مجھے یہ پوچھنا ہے کہ میں کیا طلاق دے دوں ؟میں تو زندگی گزارنا چاہتا ہوں لیکن سسرال والے مان نہیں رہے طلاق مانگ رہے ہیں اگر میں  طلاق نہ دوں  تو یہ لوگ کورٹ جا رہے ہیں خلع لینے کے لیے کسی وجہ کےبغیر یہ لوگ خلع لیں گے تو کیا یہ درست ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائل کو چاہیے کہ وہ پہلے اپنے خاندان کے بڑوں اور سسرال والوں کے ساتھ مل بیٹھ کر افہام وتفہیم کے ساتھ معاملات کو حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں، سسرال والے جن وجوہات کی بناء پر طلاق کا مطالبہ کر رہے ہیں ان کا جائزہ لیا جائے کہ آیا ان وجوہات کی بناء پر طلاق  تک کی نوبت تک جانا درست ہے یا نہیں ہے، پھر ان کا مناسب حل نکالا جائے۔ اگر اس سب کے باوجود وہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں تو سائل کو پورا اختیار ہے چاہے تو طلاق دے یا نہ دے۔

اور  اگر شوہر کی طرف سے کسی قسم کی زیادتی نہیں ہے، تو  بیوی اور اس کے خاندان والوں کے لیے  خلع یا طلاق کا مطالبہ کرنا  ہر  گز  جائز نہیں ، اور نہ ہی شوہر پر طلاق دینا واجب ہے،بلکہ بیوی پر واجب ہے کہ ایک فرماں بردار  بیوی بن کر شوہر کے  حقوق کی ادائیگی کرتی  رہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: حلال چیزوں میں سب سے مبغوض  شے اللہ  تعالیٰ  کے نزدیک طلاق ہے۔

نیزواضح رہے کہ خلع دیگر مالی معاملات کی طرح ایک مالی  معاملہ ہے ،جس طرح  دیگر  مالی معاملات  میں متعاقدین کی  رضامندی  ضروری  ہوتی ہے ،اسی طرح خلع میں بھی میاں بیوی کی رضامندی ضروری ہے،کوئی ایک فریق راضی ہو ،دوسرا فریق  راضی  نہ ہو توایسا  خلع شرعًا معتبر نہیں  ہوتا ،خواہ وہ عدالتی  خلع ہی کیوں  نہ ہو،لہذا صورتِ  مسئولہ میں شوہر(سائل)کی رضامندی کےبغیر اگر عدالت خلع کی ڈگری جاری کرےگی تو یہ خلع  شرعًامعتبر نہیں ہوگا۔

ابو داؤد شریف میں ہے:

"عن ابن عمر عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: أبغض الحلال إلی اللہ عزو جل’’الطلاق".

( کتاب الطلاق، باب کراہۃ الطلاق، النسخۃ الہندیۃ، ج: 1، صفحہ: 296)

ترمذی شریف میں ہے:

"عن ثوبانؓ، أنّ رسول اللہ صلی اللہ علیه و سلّم قال: أیما امرأۃ سألت زوجها طلاقًا من غیر بأس، فحرام علیها رائحة الجنة".

(أبواب الطلاق واللعان،بابماجاء في المختلعات، ج: 1، صفحہ: 226)

فتاوی شامی میں ہے:

"وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولايستحق العوض بدون القبول، بخلاف ما إذا قال: خالعتك و لم يذكر العوض ونوى الطلاق فإنه يقع".

(باب ا لخلع، ج: 3،صفحہ: 441، ط: ایچ،  ایم، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101027

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں