بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر وضو کے نماز پڑھانے کا حکم


سوال

میں ایک جگہ امامت کر رہا تھا اچانک میرا وضو ٹوٹ گیا، لیکن شرم کے مارے میں نے نمازپوری کی،  ظاہر ہے نماز تو سب  کی نہیں ہوئی  اب میں ان لوگوں کو نہیں جانتا کہ وہ کون تھے کہاں  سے تھے تو اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟

جواب

واضح رہے کہ طہارت (باوضو ہونا)نماز کے لیے شرط ہے، بغیر وضو کے نماز صحیح نہیں ہوتی،  اگر امام نے لاعلمی میں بلاوضو نماز پڑھادی تو امام کی نماز بھی نہ ہوگی اور امام کے پیچھے پڑھنے والے مقتدیوں کی نماز بھی نہ ہوگی، لہٰذا دونوں کو دوبارہ نماز پڑھنا ضروری ہے۔ امام کو چاہئے کہ اس بات کا اعلان کردے تاکہ جو لوگ اس نماز میں شریک ہوئے ہوں وہ ا پنی اپنی نماز کا اعادہ کرلیں۔

صورت مسئولہ میں جب امام کا نماز کے دوران اچانک وضو ٹوٹ گیاتھا تو اس دوران کسی کو اپنا نائب بنا کر وضو کے لیے چلاجاتا اور وضو کر کے نماز میں شریک ہو جاتا ،یا نماز کے بعد اعلان کر دیتا کے نماز نہیں ہوئی ، نماز دوبارہ پڑھیں گے، لیکن اس سب کے باوجود امام نے کچھ بھی نہیں کیااور نما ز پڑھا دی تو  سب کی نماز نہیں ہوئی اور امام نے  بہت  بڑے گناہ کا ارتکاب کیا ہے، تاہم مقتدیوں کی نماز  کا وبال امام پر  ہو گا۔ لہذا اگر معلوم ہو سکتا ہے تو ان نمازیوں کو بتا دیا جائے کہ آپ اپنی فلاں نماز  کا اعادہ کر لیں، اور اگر معلوم نہیں ہو سکتا تو خوب صدق دل سے توبہ استغفار کریں۔

بدائع الصنائع  میں ہے:

"(أما) شرائط أركان الصلاة: (فمنها) الطهارة بنوعيها من الحقيقية والحكمية، والطهارة الحقيقية هي طهارة الثوب والبدن ومكان الصلاة عن النجاسة الحقيقية، والطهارة الحكمية هي طهارة أعضاء الوضوء عن الحدث، وطهارة جميع الأعضاء الظاهرة عن الجنابة.

(أما) طهارة الثوب وطهارة البدن عن النجاسة الحقيقية فلقوله تعالى: {وثيابك فطهر}[المدثر: 4] ، وإذا وجب تطهير الثوب فتطهير البدن أولى. (وأما) الطهارة عن الحدث والجنابة فلقوله تعالى: {يا أيها الذين آمنوا إذا قمتم إلى الصلاة فاغسلوا وجوهكم} [المائدة: 6] إلى قوله: {ليطهركم} [الأنفال: 11]. وقول النبي صلى الله عليه وسلم : «لا صلاة إلا بطهور» ، وقوله عليه الصلاة والسلام: «لا صلاة إلا بطهارة» وقوله صلى الله عليه وسلم: «مفتاح الصلاة الطهور» . وقوله تعالى: {وإن كنتم جنباً فاطهروا} [المائدة: 6]".

 (كتاب الصلاة، فصل شرائط أركان الصلاة ،ج: 1، صفحه: 114، ط :  دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404102084

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں