بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بڑے بال رکھنا


سوال

بال رکھنا کہاں تک جائز اور سنت ہے ؟اور طالب علم بڑے بال رکھ سکتا ہے  یا نہیں ؟

جواب

احادیثِ مبارکہ  سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ سر پر بال رکھنے کا اہتمام فرمایا کرتے تھے، عام حالت میں کانوں کی لو تک بال رکھا کرتے اور کبھی وہ بڑھ کر  کندھے کے قریب بھی پہنچ جایا کرتے؛ اس لیے عام حالات میں بال  رکھنے کا مسنون طریقہ یہی ہے، لیکن آپ ﷺ نے بال رکھنے سے متعلق بہت سی ہدایات بھی دی ہیں کہ اگر کوئی شخص بال کاٹے تو پورے کاٹے ، آدھے کاٹنا اور آدھے بال رکھنا جیسا کہ غیر اقوام کا طریقہ ہے، یہ درست نہیں ، اسی طرح آپ ﷺ نے یہ بھی تعلیم دی کہ جو شخص بال رکھے ان کا اِکرام بھی کرے،  یعنی کنگھی اور تیل وغیرہ کا اہتمام کرے اور بال کو صاف ستھر ا رکھے اور  اس کو پراگندہ ہونے سے بچائے۔

نیز بال رکھنا جس طرح سنت ہے، اسی طرح بال کاٹنے کو بھی بعض محدثین نے اور بالخصوص ہمارے فقہاء کرام نے سنت کہا ہے، اور ہر جمعہ بالوں کے حلق کو مستحب کہا گیا ہے۔

طالب علم بھی مذکورہ بالا تفصیل کے موافق بڑے بال رکھ سکتا ہے ، ناجائز نہیں ، لیکن اگر  کسی طالب علم کا ولی یا سرپرست یہ بہتر سمجھے کہ وہ بال رکھ کر اس کا خیال نہیں رکھ سکیں گے، یا اس میں لگ کر  وہ دوسری اہم ضروریات سے غافل ہوجائیں گے، یا  تعلیمی ضرویات وغیرہ  جیسے اہم امور میں مشغولیت کی وجہ سے وہ انہیں بال کٹوانے کا حکم دے تو یہ اس کے لیے جائز ہے،  حدیث  مبارک میں ہے آپ ﷺ نے حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے تین دن بعد ان کے بچوں کو بلایا اور حلاق کو بلا کر ان سب کو گنجا کرادیا، اس حدیث کے تحت ملا علی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: باوجود یہ کہ بال رکھنا افضل ہے، آپ ﷺ نے ان بچوں کے بال اس لیے کٹوائے کہ ان کی ماں اسماء بنت عمیس شوہر کی جدائی  کی وجہ سے سخت ترین صدمہ سے دو چار تھی ، ان کو غم کی وجہ سے اتنی فرصت کہاں ملتی کہ وہ  بچوں کے بال میں تیل ، کنگھی کرتیں؛ اس لیے آپ ﷺ نے ان کے بال کٹوادیے، اس کے بعد ملاعلی قاری رحمہ اللہ ، عبد الملک رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ولی کو اپنے ماتحت بچوں کے حلق وغیرہ کا حق ہے۔اور مدارس کے اساتذہ طلبہ کے سرپرست ہی ہوتے ہیں۔اور مدراسِ دینیہ میں انتظامی طور پر بال رکھنے سے منع کیا جاتا ہے، اور اکابرینِ سلف کا بھی یہی طریقہ رہا ہے، اور وہ اس میں طلبہ کرام کے بے شمار مصالح مدِنظر رکھتے ہیں،اور بالخصوص ان کی تربیت کا پہلو مدنظر ہوتا ہے ، جب کہ یہ فعل ناجائز بھی نہیں ہے بلکہ جائز اور مستحب ہے، لہذا مدارس کے طلباء کے لیے معاہدہ کی رو  سے انتظامیہ کی ہدایات کے مطابق بال کٹوانا ضروری ہے۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے :

"...(قال علي: فمن ثم) : أي: من أجل أني سمعت هذا التهديد والوعيد الشديد (‌عاديت ‌رأسي) : مخافة أن لا يصل الماء إلى جميع شعري، أي: عاملت مع رأسي معاملة المعادي مع العدو، من القطع والجز، فجززته وقطعته، وروى الدارمي وأبو داود في آخر هذا الحديث أنه كان يجز شعره، وقيل: ‌عاديت ‌رأسي، أي: شعري، كذا نقله السيد جمال الدين. وعن أبي عبيدة: عاديت شعري رفعته عند الغسل (فمن ثم ‌عاديت ‌رأسي) : أي: فعلت برأسي ما يفعل بالعدو من الاستئصال وقطع دابره ". قال الطيبي: وفيه أن المداومة على حلق الرأس سنة ; لأنه صلى الله عليه وسلم قرره، ولأن عليا رضي الله تعالى عنه من الخلفاء الراشدين الذين أمرنا بمتابعة سنتهم اهـ."

(باب الترجل ،ج:2،ص:430،ط:دارالفکر بیروت)

وفیہ ایضاً

"....(فقال: ادعوا لي) : أي لأمري (الحلاق) : أي المزين (فأمره) : أي بعد مجيئه (فحلق رءوسنا) . ‌وإنما ‌حلق ‌رءوسهم ‌مع ‌أن إبقاء الشعر أفضل إلا بعد فراغ أحد النسكين على ما هو المعتاد على الوجه الأكمل لما رأى من اشتغال أمهم أسماء بنت عميس عن ترجيل شعورهم بما أصابها من قتل زوجها في سبيل الله، فأشفق عليهم من الوسخ والقمل. قال ابن الملك: وهذا يدل على أن للولي التصرف في الأطفال حلقا وختانا."

(باب الترجل ،ج:7،ص:2834،ط:دارالفکر بیروت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144504101150

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں