بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ربیع الثانی 1446ھ 11 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بال کےبدلےملنےوالی رقم کاحکم


سوال

 سوال یہ ہے کہ عورت نے بال دےکر اس پر کوئی چیز خریدی اب یہ کام تو حرام ہے، لیکن خریدی ہوئی چیز کا کیا حکم ہے؟ خود تو استعمال نہیں کرسکتی ،اب کیا صدقہ کر سکتی ہے؟ اور اس چیز کو دوسرے لوگ استعمال کر سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہےکہ انسانی بالوں کی خریدوفروخت جائزنہیں ،اوراگرکسی نےخریدوفروخت کردی،تویہ معاملہ ختم کرناضروری ہے؛لہذاصورتِ مسئولہ میں عورت نےانسانی بالوں  کے ذریعہ جوخریدوفروخت کامعاملہ  کیاہے،اسےختم کرکے،خریدارکواُس کی چیزواپس پہنچاناضروری ہے،اوراگرممکن نہ ہو،تو بالوں کے بدلے خریدی ہوئی چیزفقراء میں بغیرنیتِ ثواب صدقہ کردے،اورفقراء اس کواستعمال میں لاسکتےہیں،اوراگرخودعورت ضرورت مندہو،تواس چیزکواپنےاستعمال میں لاسکتی ہے۔

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیہ میں ہے:

"شعر ‌الإنسان طاهر حيا أو ميتا، سواء أكان الشعر متصلا أم منفصلا، واستدلوا لطهارته بأن النبي صلى الله عليه وسلم ناول أبا طلحة شعره فقسمه بين الناس.واتفق الفقهاء على عدم جواز الانتفاع بشعر الآدمي بيعا واستعمالا؛ لأن الآدمي مكرم لقوله سبحانه وتعالى: {ولقد كرمنا بني آدم}.

فلا يجوز أن يكون شيء من أجزائه مهانا مبتذلا."  

(حرف الشين،102/26،ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الذي يرجع إلى المعقود عليه فأنواع. . . (ومنها) أن يكون مالا لأن البيع مبادلة المال بالمال، فلا ينعقد بيع الحر؛ لأنه ليس بمال."

(كتاب البيوع،‌‌فصل في الشرط الذي يرجع إلى المعقود عليه،١٣٨/٥،دار الكتب العلمية وغيرها)

ہدایہ کی شرح بنایہ میں ہے:

"وأما شرطه فأنواع: منها في العاقد، وهو أن يكون عاقلا مميزا، ومنها في الآلة، وهو أن يكون بلفظ الماضي، ومنها في المحل وهو ‌أن ‌يكون ‌مالا متقوما."

(كتاب البيوع،٣/٨،ط:دار الكتب العلمية)

دررالحکام میں ہے:

"(بطل بيع ما ليس بمال والبيع به) أي جعله ثمنا بإدخال الباء عليه (كالدم والريح والحر والميتة)...(وحكمه) أي حكم البيع الباطل (أن المبيع به لا يملك) أي لا يكون ملكا للمشتري؛ لأن الباطل لا يترتب عليه الحكم بخلاف الفاسد كما مر."

(كتاب البيوع،باب البيع الفاسد،١٦٨/٢،ط:دار إحياء الكتب العربية)

الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:

"والملك الخبيث ‌سبيله ‌التصدق به، ولو صرفه في حاجة نفسه جاز. ثم إن كان غنيا تصدق بمثله، وإن كان فقيرا لا يتصدق."

(كتاب  الغصب ،3/61،ط:دارالفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412101507

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں