اگر ایک شخص کسی کو جانور خرید کر اس شرط پر دے کہ اس جانور کی دیکھ بھال اور تربیت اس کے ذمے ہے اور خرچ و منافع نصف ہے تو کیا یہ صورت جائز ہے؟
کسی کوکوئی جانوراس شرط پر دیناکہ دیکھ بھال اورپالنااس کے ذمہ ہواورخرچ و منافع نصف نصف ہوں گے، یہ عقدشرعاجائزنہیں ،اس صورت میں تمام منافع جانور دینےوالے یعنی مالک کےہوں گے،اورجانوروں کی دیکھ بھال اورپالنےوالا عرف کےمطابق اجرت کا حق دار ہوگا۔
البتہ اس کے جواز کی متبادل صورتیں یہ ہیں :
ایک صورت یہ ہے کہ جانور پالنے والے کو کرائے پر دے دیا جائے اور اس کی اجرت طے کرلی جائے، تو ایسی صورت میں جانور، اس کا دودھ اور اس کے بچے سب مالک کی ملکیت شمار ہوں گے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ مالک، جانور کا آدھا حصہ آدھی قیمت پر پالنے والے کو فروخت کر دے اور وہ قیمت معاف کر دے، تو اس صورت میں دونوں جانور کے مشترک مالک بن جائیں گے۔ پھر دودھ اور بچے بھی دونوں کے درمیان برابر تقسیم ہوں گے۔
تیسری صورت یہ ہے کہ دونوں یعنی مالک اور پالنے والا اپنی اپنی رقم ملا کر جانور خریدیں، تو ہر شخص اپنی مالیت کے تناسب سے اس جانور، اس کے دودھ اور بچوں میں شریک ہوگا۔
البتہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ابتلاءِ شدید کی صورت میں ذکر کردہ معاملہ میں جواز کی گنجائش کا قول اختیار کیا ہے۔ لہذا اگرابتلاءِ عام کی صورت میں کسی نے یہ معاملہ کرلیا ہو تو اس کو ناجائز نہیں کہا جائے گا، البتہ ابتداءً ایسا معاملہ نہیں کیا جائے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"دفع بقرة إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافا فالإجارة فاسدة وعلى صاحب البقرة للرجل أجر قيامه وقيمة علفه إن علفها من علف هو ملكه لا ما سرحها في المرعى ويرد كل اللبن إن كان قائما، وإن أتلف فالمثل إلى صاحبها لأن اللبن مثلي، وإن اتخذ من اللبن مصلا فهو للمتخذ ويضمن مثل اللبن لانقطاع حق المالك بالصنعة."
(کتاب الإجارة،الباب الخامس،الفصل الثالث،ج:4،ص:445،ط:ألمكتبة ألحبيبة-كوئته)
فتاوی شامی میں ہے:
"باب الإجارة الفاسدة (الفاسد) من العقود (ما كان مشروعا بأصله دون وصفه، والباطل ما ليس مشروعا أصلا) لا بأصله ولا بوصفه (وحكم الأول) وهو الفاسد (وجوب أجر المثل بالاستعمال)(قوله وجوب أجر المثل) أي أجر شخص مماثل له في ذلك العمل،...الخ"
(کتاب الإجارۃ،باب الإجارۃ الفاسدۃ،ج:6،ص:45،ط:سعید)
امداد الفتاوی میں ہے:
" سوال: زید نے اپنا بچھڑا بکر کو دیا کہ تو اس کوپر ورش کر بعد جوان ہونے کے اس کی قیمت کر کے ہم دونوں میں سے جو چاہے گا نصف قیمت دوسرے کو دے کر اسے رکھ لے گا ، یا زید نے خالد کو ریوڑ سونپا اور معاہدہ کر لیا کہ اس کو بعد ختم سال پھر پڑتال لیں گے، جو اس میں اضافہ ہوگا وہ با ہم تقسیم کر لیں گے، یہ دونوں عقد شرعاً جائز ہیں یا قفیر طحان کے تحت میں ہے جیسا کہ عالمگیری جلد پنجم ص ۲۷۱ مطبوعہ احمدی میں ہے۔ دفع بقرة الى رجل على ان يعلفها وما يكون من اللبن والثمن بينهما انصافاً والاجارة فاسدة ۔
الجواب:كتب إلي بعض الأصحاب من فتاوى ابن تيميه كتاب الاختيارات ما نصه ولو دفع دابته أو نخله إلى من يقوم له وله جزء من نمائه صح، وهو رواية عن أحمد ، پس حنفیہ کے قواعد پر تو یہ عقد نا جائز ہے، کما نقل فی السوال عن عالمگیریہ لیکن بنا بر نقل بعض اصحاب امام احمد کے نزدیک اس میں جواز کی گنجایش ہے ، پس تحرز احوط ہے، اور جہاں ابتلا ، شدید ہو توسع کیا جا سکتا ہے۔"
(کتاب الاجاره ،ج:3،ص:343،ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144612100463
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن