بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بکریاں پالنے کی مختلف صورتوں کا حکم


سوال

(1) زید نے خالد سے کچھ (4) بکریاں لیں کہ انہیں میں (یعنی زید) پالتا رہوں گا، جتنی بھی افزائش ِ نسل ہوگی  اُسے مالک کی 4 بکریاں نکالنے کے بعد آپس میں آدھا آدھا کیا جائے گا۔

(2) زید نے خالد سے 4 بکریاں لیں، اور ان کی آدھی یا اس سے کچھ کم قیمت بھی ادا کردی کہ دونوں مالک ہوں اور افزائش کے بعد برابر تقسیم کردیں گے۔

(3) زید نے خالد سے ایک بکری لی دیکھ بھال کے لیے سالانہ 1000 روپے اجرت پر، جتنی بکریاں بڑھتی رہیں گی ہر بکری پر سالانہ 1000 روپے خالد زید کو دے گا، لیکن بکری کا اپنے بچے کو دودھ پلانے کی مدت شمار نہیں ہوگی۔

اب معلوم یہ کرنا ہے کہ ان میں سے کون سی صورت جائز ہے؟ اور ان کے علاوہ بھی اس معاملے کی کوئی جائز صورت ہو تو راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

(1) صورتِ مسئولہ میں چوں کہ مدتِ اجارہ اور بدلِ اجارہ مجہول وموہوم ہے، لہٰذا یہ صورت ناجائز ہے۔ اگر کسی نے ایسا کرلیا تو جانور کے پیدا ہونے والے بچےجانور کے مالک کے ہوں گے، دوسرے شخص کو چارے کی رقم اور اتنی اجرت ملے گی جتنی مارکیٹ میں اس جیسے شخص کو جانوروں کی نگرانی کی  ملتی ہے۔

(2) یہ صورت جائز ہے،  اس میں ہر ایک اپنی مالیت کے بقدر بکریوں میں شریک ہوگا، اوراسی طرح  مالیت کے تناسب سے دونوں  شریک، بکریوں کے دودھ ، اور ہر ہر بچے میں بھی  شریک ہوں گے ، البتہ اس صورت میں اس طرح طے کرنا کہ پہلا بچہ ایک کا ہوگا اور دوسرا بچہ دوسرے کا ہوگا یہ شرعًا غلط ہے،دونوں ہر ہر بچے میں اپنے اپنے حصے کے بقدر شریک ہوں گے ۔

(3) یہ صورت بھی جائز ہے۔

اس کے علاوہ مذکورہ معاملے کی ایک اور جائز صورت بھی ہے جو اختیار کی جاسکتی ہے، وہ یہ کہ  مثلاً خالد اپنے پیسوں سے جانور خریدے اور پھر  زید کے ہاتھ اس کا آدھا حصہ  بطور ادھار  آدھی قیمت پر بیچ دے ،تو  دونوں کے درمیان  وہ جانور مشترک ہوجائے گا،  اس جانورسے  جو بچے پیدا ہوجائیں، ہر ہر بچے میں خالد اور  زید  برابر کے شریک ہوں گےاور اس طرح اس جانورکے دودھ میں بھی دونوں برابر شریک ہوں گے ۔پھر جب  معاملہ ختم کیا جائے تو اصل جانور کے نصف حصے  کی قیمت سے خالد اپنا قرضہ وصول کریں۔

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"دفع بقرةً إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافاً فالإجارة فاسدة."

(کتاب الإجارة، الفصل الثالث في قفيز الطحان وما هو في معناه، ٤/ ٥٠٤، ط: رشیديه)

خلاصۃ الفتاویٰ ہے :

"رجل دفع بقرةً إلى رجل بالعلف مناصفةً وهي التي تسمى بالفارسية "كاونيم سوو" بأن دفع على أن ما يحصل من اللبن والسمن بينهما نصفان، فهذا فاسد، والحادث كله لصاحب البقرة والإجارة فاسدة."

(خلاصة الفتاوی، کتاب الإجارة، الجنس الثالث في الدواب ومایتصل بها، ٣/ ١١٤، ط: قدیمی)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولا خلاف في شركة الملك أن ‌الزيادة ‌فيها ‌تكون على قدر المال حتى لو شرط الشريكان في ملك ماشية لأحدهما فضلا من أولادها وألبانها، لم تجز بالإجماع."

(كتاب الشركة، فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة، ٦/ ٦٢، ط: دار الكتب العلمية)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"‌بخلاف ‌الزوائد فإنها تتولد من الملك فإنما تتولد بقدر الملك."

(كتاب القسمة، ١٥/ ٦، ط: دار المعرفة)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وشرطها كون الأجرة والمنفعة معلومتين؛ لأن جهالتهما تفضي إلى المنازعة."

(كتاب الإجارة، ٦/ ٥، ط: سعيد)

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"وعلى هذا إذا ‌دفع ‌البقرة ‌إلى ‌إنسان بالعلف ليكون الحادث بينهما نصفين فما حدث فهو لصاحب البقرة ولذلك الرجل مثل العلف الذي علفها وأجر مثله فيما قام عليها وعلى هذا إذا دفع دجاجة إلى رجل بالعلف ليكون البيض بينهما نصفين، والحيلة في ذلك أن يبيع نصف البقرة من ذلك الرجل ونصف الدجاجة ونصف بذر الفليق بثمن معلوم حتى تصير البقرة وأجناسها مشتركة بينهما فيكون الحادث منها على الشركة، كذا في الظهيرية."

(كتاب الشركة، الباب الخامس، ٢/ ٣٣٥، ط: دارالفكر)

وفيه أيضاً:

"وإذا ‌اشترى رجل شيئا، فقال له رجل آخر: أشركني فيه فأشركه فهذا بمنزلة البيع، فإن كان قبل قبض الذي ‌اشترى لم يصح، ولو أشركه بعد القبض ولم يسلمه إليه حتى هلك لم يلزمه ثمن، ويعلم أنه لا بد من قبول الذي أشركه؛ لأن لفظ " أشركتك " صار إيجابا للبيع، هكذا في فتح القدير."

(كتاب الشركة، الباب الأول، الفصل الثاني، ٢/ ٣٠٤، ط: دارالفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504101132

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں