بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

بکریاں پالنا کیسا ہے جب کہ پڑوسیوں کو اس سے تکلیف ہوتی ہو؟


سوال

بلڈنگ کے گراؤنڈ فلور پر بھیڑ بکریاں پالنا( جس کی وجہ سے بلڈنگ کے رہائشیوں کو تکلیف ہوتی ہو، خاص طور پر جانوروں کی بو کی وجہ سے پہلی منزل والوں کو تکلیف ہوتی ہو) کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے  پڑوسی کے حقوق بہت اہمیت کے ساتھ بیان کیے ہیں اور ان حقوق کو ادا کرنے کی بھی بہت تاکید کی ہے اور پڑوسی کو کسی بھی قسم کی تکلیف پہنچانے سے سختی سے منع کیاہے، جیسا کہ  ایک حدیث میں  ہے:

” حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہمانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت جبرئیل علیہ السلام ہمیشہ مجھ کو ہمسایہ کے حق کا لحاظ رکھنے کا حکم دیا کرتے تھے یہاں تک کہ مجھے خیال ہوا کہ حضرت جبرئیل حکم الہی کے مطابق بذریعہ وحی عنقریب ہی پڑوسیوں کو ایک دوسرے کا وارث قرار دیں گے۔“

  ایک اور  حدیث میں ہے:

”حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قسم ہے خدا کی اس شخص کا ایمان کامل نہیں ہے قسم ہے خدا کی اس شخص کا ایمان کامل نہیں ہے ( جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار الفاظ ارشاد فرمائے اور اس شخص کی وضاحت نہیں کی تو) صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ شخص کون ہے جس کا ایمان کامل نہیں ہے اور جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ شخص جس کے پڑوسی اس کی برائیوں اور اس کے شر سے محفوظ و مامون نہ ہوں۔“

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر گراؤنڈ فلور والے لوگ اپنے گھر میں یا  اپنے گھر سے باہر گراؤنڈ فلور پر بکریاں پالتے ہیں اور اس کی وجہ سے پوری بلڈنگ والوں کو تکلیف ہوتی ہے، تو ان کا یہ عمل پڑوسیوں کو تکلیف پہنچانے کی وجہ سے ناجائز  ہے، ایسے لوگوں پر لازم ہے کہ بکریاں پالنے کےلیے کسی دوسری ایسی متبادل جگہ کاا نتظام کریں ، جس سے کسی کو تکلیف نہ ہوتی ہو۔

صحیح بخاری میں ہے:

6015 - "حدثنا محمد بن منهال: حدثنا يزيد بن زريع: حدثنا عمر بن محمد، عن أبيه، عن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما زال جبريل ‌يوصيني ‌بالجار حتى ظننت أنه سيورثه".

” حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت جبرئیل علیہ السلام ہمیشہ مجھ کو ہمسایہ کے حق کا لحاظ رکھنے کا حکم دیا کرتے تھے یہاں تک کہ مجھے خیال ہوا کہ حضرت جبرئیل حکم الہی کے مطابق بذریعہ وحی عنقریب ہی پڑوسیوں کو ایک دوسرے کا وارث قرار دیں گے  “۔ (مظاہر حق)

تشریح : اس حدیث سے ہمسایہ کے حقوق یعنی پڑوسیوں کے ساتھ احسان و نیک سلوک کرنے اس کے دکھ درد کو بانٹنے اور اس کو کسی قسم کی تکلیف و پریشانی میں مبتلا نہ کرنے کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے چنانچہ حضرت جبرئیل اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کو جس تو اتر اور پابندی کے ساتھ حکم دیتے تھے۔ اس سے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خیال قائم کر لیا تھا کہ حضرت جبرئیل شاید کسی قریبی وقت میں یہ وحی لے کر نازل ہوں کہ پڑوسی آپس میں ایک دوسرے کے وارث قرار دیئے جاتے ہیں۔(مظاہر حق)

6016 - "حدثنا عاصم بن علي: حدثنا ابن أبي ذئب، عن سعيد، عن أبي شريح أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «والله لا يؤمن والله لا يؤمن، والله لا يؤمن. قيل: ومن يا رسول الله؟ قال: الذي لا يأمن ‌جاره ‌بوايقه".

”حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قسم ہے خدا کی اس شخص کا ایمان کامل نہیں ہے قسم ہے خدا کی اس شخص کا ایمان کامل نہیں ہے ( جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار الفاظ ارشاد فرمائے اور اس شخص کی وضاحت نہیں کی تو) صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ شخص کون ہے جس کا ایمان کامل نہیں ہے اور جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ شخص جس کے پڑوسی اس کی برائیوں اور اس کے شر سے محفوظ و مامون نہ ہوں“۔(مظاہر حق)

(كتاب الأدب، ‌‌باب الوصاة بالجار، ‌‌باب إثم من لا يأمن جاره بوايقه، ج:8، ص:10، ط: دار طوق النجاة)

درر الحکام فی شرح مجلۃ الحکام میں ہے:

"كل ‌يتصرف ‌في ‌ملكه المستقل كيفما شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش للغير".

(الكتاب العاشر الشركات، الفصل الأول في بيان بعض القواعد المتعلقة بأحكام الإملاك، ج:3، ص:201، ط: دار الجيل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144607100700

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں