بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بکریاں اس شرط پر پالنے کے لیے دی کہ دو میں سے ایک بچہ پالنے والے کا ہو


سوال

۱۔ میں نے کاروبار کی نیت سے بکریاں لی تھیں کچھ وقت پہلے اور جس کو پالنے کے لیے دی ہیں، اس سے معاہدہ یہ کیا ہے کہ دو بکری کے بچوں میں سے ایک پالنے والے کا، کیا یہ جائز ہے؟ اگر نہیں تو جائز صورت کیا ہے؟

۲۔ کیا یہ زکات کے نصاب میں شمار ہوں گی؟

۳۔ شوہر کا یو پی ایس کا کاروبار کم ہوا تو میں نے بی سی لے کر پانچ لاکھ روپے ایک میڈیکل اسٹور میں لگائے ہیں جس میں ماہانہ بنیاد پر نفع نقصان کے اعتبار سے فیصد طے کیا ہے، کیا اس رقم کو بھی نصابِ زکات میں شمار کریں گے؟

جواب

۱۔ صورتِ مسئولہ میں مذکورہ صورت جائز نہیں ہے،  بلکہ ایسی صورت میں دودھ اور بچے دونوں آپ کے ہوں  گے، اور پالنے والے کو اجرت دی جائے گی،یعنی عام طورپر جانور کے چارہ وغیرہ کے علاوہ جانور پالنے اور رکھنے کی جواجرت بنتی ہے پالنے والااس اجرت کا مستحق ہوگا۔ 

اس کے متبادل جواز کی ممکنہ صورتیں درج ذیل ہیں:

۱۔۔  ایک صورت یہ  ہے کہ کرایہ پر پالنے کے لیے دے دے، اور پالنے والے کی اجرت طے کرلے، اس صورت میں دودھ، بچے وغیرہ سب آپ کے ہوں گے۔

2۔۔ آپ نے  اپنے پیسوں سے جانور خریدے  اس کا آدھا حصہ  آدھی قیمت پر پالنے والے کو  بیچ دیں ،پھر اسے وہ پیسے معاف کردیں،تو  دونوں کے درمیان  وہ جانور مشترک ہوجائیں گے،  ان جانوروں سے  جو بچے   پیدا ہوجائیں ، ہر ہر بچے میں آپ دونوں    برابر شریک ہوں گےاور اس طرح اس جانورکے دودھ میں بھی دونوں برابر شریک ہوں گے ۔

۲۔مذکورہ بکریاں چونکہ تجارت کی نیت سے لی ہیں، لہذا زکات کا سال مکمل ہونے کے وقت ان کا شمار سامانِ تجارت میں ہوگا۔

۳۔ بی سی کی رقم وصول کرنے کے بعد جب زکات کا سال مکمل ہوجائے، تو جو رقم آپ کے پاس محفوظ ہو، اس میں سے رواں سال جمع کرانے کی رقم کو منہا کر کے جو رقم باقی رہے، اس پر زکات ادا کرنی ہوگی۔ اسی طرح جو رقم کاروبار میں لگائی ہے، اس کی سامانِ تجارت میں قیمتِ فروخت میں سے شریک کا نفع منہا کرکے جو رقم بچے، اس پر زکات ادا کرنی ہوگی، مثلاً کسی ایک سامانِ تجارت کی قیمتِ خرید 50 ہے اور اس کی قیمتِ فروخت 100 روپے ہے جس میں سے 10 روپے شریک کے ہیں تو 90 روپے پر زکات یعنی اس کا ڈھائی فیصد زکات ادا کرنی ہوگی۔

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"دفع بقرةً إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافا فالإجارة فاسدة ... والحيلة في جوازه أن يبيع نصف البقرة منه بثمن ويبرئه عنه ثم يأمر باتخاذ اللبن والمصل فيكون بينهما."

(4/504۔ کتاب الاجارة، الفصل الثالث في قفيز الطحان وما هو في معناه  ۔ط/رشیديه)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406101458

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں