بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

بکریاں پالنے کے لیے دینے کی مختلف صوررتیں اور ان کا حکم


سوال

۱- ایک شخص کسی دوسرے کو بکریاں پالنے کے لیے دے اور کہے کہ زمین ( پالنے کی جگہ) تمہاری ہوگی اور ان بکریوں کی دیکھ بھال کا خرچہ میرے  ذمہ ہوگا، تو اب زمین دار کے لیے اجرت کس طرح طے کی جائے؟ کیا اس کو اجرت میں بکریاں ملے گی؟ اور اگر ابتداءً اجرت طے نہ کر پائے تو اس صورت میں کیا اجرت ملنی چاہیے؟    

    ۲- اگر زمین دار کی اپنی بکریاں بھی اس زمین میں پل رہی ہوں تو اس صورت میں بھی زمین کی اجرت لے سکتا ہے؟ 

     ۳- اسی طرح ایک شخص ان دونوں( بکری والے اور زمین والے کے درمیان) واسطہ بنے، یعنی دونوں کا آپس میں معاملہ کروائے تو کیا اس بیچ والے شخص کو اجرت مل سکتی ہے، اور اس کی کیا شرائط ہیں؟

۴- ایک مسئلہ یہ ہے کہ دیہات میں ایک شخص مثلاً ایک گائے خرید کر دوسرے شخص کو اس طور پر دیتا ہے کہ وہ اس کی مکمل دیکھ بھال کرے گا، پھر اگر گائے بچہ جنے گی اور وہ نر ہوا تو اس کو بیچ کر حاصل شدہ مال کو آدھا آدھا تقسیم کریں گے، اور اگر مادہ ہو تو اس کی دیکھ بھال کرکے نسل بڑھانے کے لیے رکھا جائے گا اور دیکھ بھال کی ذمہ داری اس دوسرے شخص پر ہوگی۔

اب کچھ عرصہ بعد جب یہ دونوں اس معاملہ کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو اب تک کا تمام جمع شدہ مال دونوں آپس میں آدھا آدھا تقسیم کرلیتے ہیں، مثلاً اگر بیس گائے ہوں تو دس دس تقسیم کرلیتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ان کا یہ معاملہ اور تقسیم کرنا صحیح ہے یا نہیں؟ اگر درست نہیں تو اس کی متبال جائز صورت کیا ہوگی؟

جواب

۱- صورتِ مسئولہ میں اگر ایک شخص دوسرے کو بکریاں پالنے کے لیے دے کہ زمین بکریاں پالنے والے کی ہوگی، جب کہ بکریوں کے چارے وغیرہ کے اخراجات خود بکریوں کے مالک کے ذمہ ہوں گے، تو ایسی صورت میں بکریاں پالنے والا بکریوں کی دیکھ بھال اور زمین کی اجرت کا حق دار ہوسکتا ہے بشرطیکہ اس بات کا پہلے سے معاہدہ کرلیں، اگر پہلے یہ بات طے نہیں ہوئی تو مذکورہ شخص اجرت مثل کا حق دار ہوگا، یعنی اگر کوئی دوسرا شخص اپنی زمین میں بکریوں کی دیکھ بھال کرے تو عرف عام میں اسے جو اجرت دی جاتی ہے، وہی اجرت اس شخص کو بھی ملے گی۔ بہر صورت، تمام بکریاں اور ان کے منافع یعنی دودھ وغیرہ  سب مالک کا ہوگا، پالنے والے کا اس میں کوئی حصہ نہ ہوگا۔

۲- اگر زمین دار کی اپنی بکریاں اس زمین میں پل رہی ہوں تو زمین کی الگ سے اجرت نہیں لے سکتا ، البتہ جب بکریاں پالنے کی اجرت طے کرے تو اسی اجرت میں زمین کی اجرت کی بھی شامل کرکے مالک سے اسے وصول کرسکتا ہے، بشرطیکہ عقد اجارہ کے وقت اجرت طے کرلی جائے۔

۳- مذکورہ شخص یعنی جو بکری کے مالک اور بکری پالنے والے کے درمیان عقد اجارہ کا واسطہ بنے، اگر وہ ان دونوں سے پہلے یہ معاملہ طے کرلے کہ وہ دونوں سے اتنے روپے اجرت لے گا تو یہ مقرر کردہ اجرت لے سکتا ہے، اور اگر پہلے سے بات طے نہیں کی تو عرف عام میں ایسے شخص (یعنی بکری کے مالک اور اس کے پالنے والے کے درمیان واسطہ بننے والے) جو اجرت ملتی ہے، اتنی اجرت اس شخص کو ملے گی۔

۴- مذکورہ معاملہ جائز نہیں ہے،  بلکہ ایسی صورت میں گائے سے حاصل شدہ نفع مثلًا دودھ اور بچے وغیرہ دونوں مالک کے ہوں گے، اور پالنے والے کو اجرت دی جائے گی،یعنی عام طور پر جانور کے چارہ وغیرہ کے علاوہ جانور پالنے اور رکھنے کی جو اجرت بنتی ہے، پالنے والا اس اجرت کا مستحق ہوگا۔

تاہم حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ابتلاءِ شدید کی صورت میں سوال  میں مذکورہ معاملہ میں جواز کی گنجائش کا قول اختیار کیا ہے، لہذا اگرابتلاءِ عام کی صورت میں  کسی نے یہ معاملہ کرلیا ہو تو  اسے پورا کرنے کی گنجائش ہے، لیکن  ابتداءً ایسا معاملہ نہ کیا جائے، بلکہ اس کے متبادل جواز کی درج ذیل ممکنہ صورتیں اختیار کی جائیں:

(۱)  ایک صورت تو وہی ہے کہ کرایہ پر پالنے کے لیے دے دے، اور پالنے والے کی اجرت طے کرلے، اس صورت میں دودھ، بچے وغیرہ سب مالک کے ہوں گے۔

(۲) زید (مثلًا)  اپنے پیسوں سے جانور خریدے اور پھر عمرو (مثلًا) کے ہاتھ اس کا آدھا حصہ  آدھی قیمت پر بیچ دے، پھر زید عمرو کو وہ پیسے معاف کردے،تو  دونوں کے درمیان  وہ جانور مشترک ہوجائے گا،  اس جانورسے  جو بچے   پیدا ہوجائیں، ان میں سے ہر ہر بچے میں زید اور عمرو برابر شریک ہوں گے اور اس طرح اس جانورکے دودھ میں بھی دونوں برابر شریک ہوں گے۔

(۳)  زید اور عمرو   دونوں پیسے ملا کرجانور خریدیں  اس میں ہر ایک اپنی مالیت کے بقدر شریک ہوگا ، اوراسی طرح  مالیت کے تناسب سے دونوں اس کے دودھ اور ہر ہر بچے میں بھی  شریک ہوں گے، البتہ اس صورت میں اس طرح طے کرنا کہ پہلا بچہ ایک ہوگا اور دوسرا بچہ دوسرے کا ہوگا یہ شرعًا غلط ہے، دونوں ہر ہر بچے میں اپنے اپنے حصے کے بقدر شریک ہوں گے۔

 فتاوی ہندیہ میں ہے:

"دفع بقرة إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافا فالإجارة فاسدة وعلى صاحب البقرة للرجل أجر قيامه وقيمة علفه إن علفها من علف هو ملكه لا ما سرحها في المرعى ويرد كل اللبن إن كان قائما...........والحيلة في جوازه أن يبيع نصف البقرة منه بثمن ويبرئه عنه ثم يأمر باتخاذ اللبن والمصل فيكون بينهما."

(کتاب الإجارۃ، الباب الخامس الفصل الثالث، ج:4، ص:445، ط: دار الفکر)

المحیط البرہانی میں ہے:

"وأما بيان شرائطها فنقول يجب أن تكون الأجرة معلومة، والعمل إن وردت الإجارة على العمل، والمنفعة إن وردت الإجارة على المنفعة، وهذا لأن الأجرة معقود به والعمل أو المنفعة معقود عليه، وإعلام المعقود به وإعلام المعقود عليه شرط تحرزا عن المنازعة كما في باب البيع."

(كتاب الإجارات الفصل الأول، ج:7، ص:395، ط: دار الكتب العلمية)

وفیہ أیضاً:

"وإذا شرط في عقد الإجارة تعجيل البدل وجب تعجيله.........وكذلك إذا أجر داراً وسلمها إليه فارغاً إلابيتاً كان مشغولاً بمتاع الآجر أو سلم إليه جميع الدار ثم انتزع بيتاً منها من يده رفع عن الأجر حصة البيت ولكن يشترط التمكن من الاستيفاء في المدة التي ورد عليها العقد في المكان الذي أضيف إليه العقد، فأما إذا لم يتمكن من الاستيفاء أصلاً أو تمكن من الاستيفاء في المدة في غير المكان الذي أضيف إليه العقد، أو تمكن من الاستيفاء في المكان الذي أضيف العقد خارج المدة لا يجب الأجر."

(كتاب الإجارات، الفصل الثاني، ج:7، ص:401،402، ط: دار الكتب العلمية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولا خلاف في شركة الملك أن الزيادة فيها تكون على قدر المال حتى لو شرط الشريكان في ملك ماشية لأحدهما فضلا من أولادها وألبانها، لم تجز بالإجماع."

(کتاب الشرکة، فصل في جواز بیان أنواع الشرکة، ج:6، ص:62، ط: دار الکتب العلمیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة ‌السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه."

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، ج:6، ص:63، ط: ايچ ايم سعيد)

امداد الفتاوی میں ہے:

”سوال: زید نے اپنا بچھڑا بکر کو دیا کہ تو اس کو پرورش کر بعد جوان ہونے کے اس کی قیمت کر کے ہم دونوں میں سو جو چاہو گا نصف قیمت دوسرے کو دے کر اسے رکھ لے گا، یا زید نے خالد کو ریوڑ سونپا اور معاہدہ کرلیا کہ اس کو بعد ختم سال پھر پڑتال لیں گے، جو اس میں اضافہ ہوگا وہ با ہم تقسیم کر لیں گے، یہ دونوں عقد شرعاً جائز ہیں یا قفیز طحان کے تحت میں ہیں ،جیسا کہ عالمگیری جلد پنجم ص ۲۷۱ مطبوعہ احمدی میں ہے:

 دفع بقوة الى رجل على ان يعلقها وما يكون من اللبن والثمن بينهما اتصافاً والتجارة فاسدة.

الجواب: كتب الى بعض الاصحاب من فتاوى ابن تيميه كتاب الاختيارات ما نصه ولو دقع دابته او نخله الى من يقوم له وله جزء من نمائه صح وهو رواية عن احمد ج:4، ص:85، س:14،پس حنفیہ کے قواعد پر تو یہ عقدنا جا ئز ہے،کما نقل فی السوال عن عالمگیریۃ، لیکن بنا بر نقل بعض اصحاب امام احمد کے نزدیک اس میں جواز کی گنجائش ہے ، پس تحرز احوط ہے، اور جہاں ابتلا، شدید ہو توسع کیا جا سکتا ہے۔“

(کتاب الاجارہ، ج3، ص:342، ط: مکتبۂ دار العلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144606101832

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں