بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بکری سے زنا کیا تو اس کے گوشت کا حکم


سوال

اگر کوئی شخص بکری کے ساتھ زنا کرے تو کیا اس بکری کا گوشت اور دودھ کھانا پینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جانور سے بدفعلی کرنا ناجائز ہے، حدیثِ مبارک  میں ایسے شخص پر لعنت کی گئی ہے،  ’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: وہ شخص ملعون ہے جو اپنے باپ کو برا بھلا کہے، وہ شخص ملعون ہے جو اپنی ماں کو برا بھلا کہے، وہ شخص ملعون ہے جو غیر اللہ کے لیے ذبح کرے، وہ شخص ملعون ہے جو زمین کی حدود بدل دے، وہ شخص ملعون ہے جو اندھے کو راستے سے بھٹکادے، وہ شخص ملعون ہے جو جانور کے ساتھ جماع کرے، وہ شخص ملعون ہے جو قومِ لوط والا عمل کرے، قوم لوط والی بات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا۔‘‘  (مسند احمد،۵/۸۳-۸۴، اخرجہ الحاکم فی المستدرک ۴/۳۹۶ (۸۰۵۲) وقال صحیح الاسناد ولم یخرجاہ واقرہ الذہبی)

اور ایسے   شخص کے اوپر تعزیری سزا جاری کی جائے گی جس کی مقدار کا تعین حاکم کی صواب دِید  پر ہے۔

ایسا جانور اگر اپنا ہے  اور وہ  ایسا  ہے کہ اس کا گوشت نہیں کھایا جاتا ہو تو اُس کو ذبح کرکے جلا دینا بہتر ہے، اور اگر اس  کا گوشت کھایا جاسکتا ہے، تو اس کا گوشت کھانا جائز ہے۔

اگر جانور کسی دوسرے شخص کا ہو تو ایسی صورت میں بدفعلی کرنے والے  پر مالک کو اس کی قیمت ادا کرنا مستحب ہے، لازم نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) لايحد بوطء (بهيمة) بل يعزر وتذبح ثم تحرق، ويكره الانتفاع بها حية وميتة مجتبى. وفي النهر: الظاهر أنه يطالب ندبا لقولهم تضمن بالقيمة.

مطلب في وطء الدابة

(قوله: وتذبح ثم تحرق) أي لقطع امتداد التحدث به كلما رئيت وليس بواجب كما في الهداية وغيرها، وهذا إذا كانت مما لاتؤكل، فإن كانت تؤكل جاز أكلها عنده. وقالا: تحرق أيضًا، فإن كانت الدابة لغير الواطئ يطالب صاحبها أن يدفعها إليه بالقيمة ثم تذبح، هكذا قالوا، ولايعرف ذلك إلا سماعًا فيحمل عليه، زيلعي ونهر (قوله: الظاهر أنه يطالب ندبا إلخ) أي قولهم يطالب صاحبها أن يدفعها إلى الواطئ ليس على طريق الجبر. وعبارة النهر: والظاهر أنه يطالب على وجه الندب، ولذا قال في الخانية: كان لصاحبها أن يدفعها إليه بالقيمة. اهـ. وعبارة البحر: والظاهر لايجبر على دفعها".

(جلد4 ص:26، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404100363

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں