بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بکری کےایک تھن سے دودھ کے ساتھ خون آنے کی صورت میں قربانی کا حکم


سوال

بکری کے ایک تھن سےدودھ کےساتھ خون مکس ہوکر آتا ہے، وہ دودھ پینے کے قابل نہیں ہوتا، کیااس بکری کی قربانی جائز ہے؟

جواب

 اگر بکری کا  ایک تھن بالکل سوکھ  جائے ، یا اس کا ایک تھن نہیں ہے، یا  تھن کٹا ہوا ہے، یا تھن سے دودھ اترنے کی صلاحیت ختم ہوجائے تو اس بکری کی قربانی جائز نہیں ہے، لیکن اگر تھن میں دودھ  اترنے کی صلاحیت موجود ہے، صرف کسی وجہ سے ایک تھن میں دودھ کے ساتھ خون آرہا ہے تو  یہ عیب نہیں ہے، اس کی قربانی جائز ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 324):

"(والجذاء) مقطوعة رءوس ضرعها أو يابستها، ولا الجدعاء: مقطوعة الأنف، ولا المصرمة أطباؤها: وهي التي عولجت حتى انقطع لبنها.
 (قوله: ولا المصرمة أطباؤها) مصرمة كمعظمة، من الصرم: وهو القطع، و الأطباء بالطاء المهملة جمع طبي بالكسر و الضم: حلمات الضرع التي من خف و ظلف و حافر و سبع، قاموس، و ما رأيناه في عدة نسخ بالظاء المعجمة تحريف.
(قوله: وهي إلخ) فسرها الزيلعي بالتي لاتستطيع أن ترضع فصيلها، وهو تفسير بلازم المعنى؛ لما في القاموس: هي ناقة يقطع أطباؤها ليبس الإحليل فلايخرج اللبن ليكون أقوى لها، و قد يكون من انقطاع اللبن بأن يصيب ضرعها شيء فيكون فينقطع لبنها اهـ. وفي الخلاصة: مقطوعة رءوس ضروعها لاتجوز، فإن ذهب من واحدة أقل من النصف فعلى ما ذكرنا من الخلاف في العين والأذن. و في الشاة و المعز إذا لم يكن لهما إحدى حلمتيهما خلقة أو ذهبت بآفة وبقيت واحدة لم يجز، و في الإبل والبقر إن ذهبت واحدة يجوز أو اثنتان لا اهـ وذكر فيها جواز التي لاينزل لها لبن من غير علة. و في التتارخانية و الشطور لاتجزئ، و هي من الشاة ما قطع اللبن عن إحدى ضرعيها، و من الإبل والبقر ما قطع من ضرعيها؛ لأنّ لكل واحد منهما أربع أضرع."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201694

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں