بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بکری کے ایک تھن میں سوجن ہو تو اس کی قربانی کا حکم


سوال

ایک صاحب کے پاس بکری ہے،اس کا ایک تھن غالباً بوجہ نظر لگنے کے سوج چکا ہے،اور دوسرا تھن اپنی حالت میں برقرار ہے۔پوچھنا یہ ہے آئندہ بقرہ عید میں اُسے ذبح کر سکتے ہیں یا نہیں؟کیا یہ عیب دار جانور شمار ہوگا؟

جواب

 اگر بکری کا  ایک تھن بالکل سوکھ  جائے ، یا اس کا ایک تھن نہیں ہے، یا  تھن کٹا ہوا ہے، یا تھن سے دودھ اترنے کی صلاحیت ختم ہوجائے تو اس بکری کی قربانی جائز نہیں ہے، لیکن اگر تھن میں دودھ  اترنے کی صلاحیت موجود ہے، صرف کسی وجہ سے ان میں سوجن ہوگئی ہے اور وہ پھول گئے ہیں تو یہ عیب نہیں ہے، اس کی قربانی جائز ہوگی،  اور اگر تھن سوجن کی وجہ سے خراب ہوگیا ہے کہ اس سے دودھ نہیں اتر سکتا تو اس کی قربانی جائز نہیں ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 324):

"(و الجذاء) مقطوعة رءوس ضرعها أو يابستها، ولا الجدعاء: مقطوعة الأنف، ولا المصرمة أطباؤها: وهي التي عولجت حتى انقطع لبنها.
 (قوله: و لا المصرمة أطباؤها) مصرمة كمعظمة، من الصرم: وهو القطع، والأطباء بالطاء المهملة جمع طبي بالكسر والضم: حلمات الضرع التي من خف وظلف وحافر وسبع قاموس، وما رأيناه في عدة نسخ بالظاء المعجمة تحريف.
(قوله: وهي إلخ) فسرها الزيلعي بالتي لا تستطيع أن ترضع فصيلها، وهو تفسير بلازم المعنى؛ لما في القاموس: هي ناقة يقطع أطباؤها ليبس الإحليل فلا يخرج اللبن ليكون أقوى لها، وقد يكون من انقطاع اللبن بأن يصيب ضرعها شيء فيكون فينقطع لبنها اهـ. وفي الخلاصة: مقطوعة رءوس ضروعها لا تجوز، فإن ذهب من واحدة أقل من النصف فعلى ما ذكرنا من الخلاف في العين والأذن. وفي الشاة والمعز إذا لم يكن لهما إحدى حلمتيهما خلقة أو ذهبت بآفة وبقيت واحدة لم يجز، وفي الإبل والبقر إن ذهبت واحدة يجوز أو اثنتان لا اهـ وذكر فيها جواز التي لا ينزل لها لبن من غير علة. وفي التتارخانية والشطور لاتجزئ، وهي من الشاة ما قطع اللبن عن إحدى ضرعيها، ومن الإبل والبقر ما قطع من ضرعيها لأن لكل واحد منهما أربع أضرع."

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109201842

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں