بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بکری اس شرط پر پالنا کہ ایک سال پیدا ہونے والے بچے پالنے والے اور دوسرے سال مالک کے ہوں گے


سوال

میں نے ایک آدمی سے بکری اس شرط پر لی کہ ایک سال میں جو بچے پیدا کرے وہ  میرے ہوں گے اور دوسرے سال تمہارے ہوں گے،  کیا یہ جائز ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں کسی سے  جانور  (بکری) اس شرط پر لینا کہ بکری سنبھالنے والا  اسے چارہ کھلائے  گا، پھر اس سے جو نسل پیدا ہو وہ دونوں کے درمیان آدھی آدھی ہوگی، یا ایک سال جو بچے ہوں گے وہ ایک کے ہوں گے اور دوسرے سال جو بچے ہوں گے وہ دوسرے کے ہوں گے، شرعًا یہ جائز نہیں ہے۔

اگر کسی نے ایسا کرلیا تو جانور کے پیدا ہونے والے بچےجانور کے مالک کے ہوں گے، دوسرے شخص کو چارے کی رقم اور اتنی اجرت ملے گی جتنی مارکیٹ میں اس جیسے شخص کو جانوروں کی نگرانی کی  ملتی ہے۔

اس کے متبادل جواز کی ممکنہ صورتیں درج ذیل ہیں:

1۔۔  ایک صورت تو  یہ ہے کہ کرایہ پر پالنے کے لیے دے دے، اور پالنے والے کی اجرت طے کرلے، اس صورت میں دودھ، بچے  وغیرہ سب مالک کے ہوں گے۔

2۔۔ زید (مثلاً)  اپنے پیسوں سے جانور خریدے اور پھر عمرو (مثلاً) کے ہاتھ اس کا آدھا حصہ  آدھی قیمت پر بیچ دے ،پھر زید عمرو کو وہ پیسے معاف کردے،تو  دونوں کے درمیان  وہ جانور مشترک ہوجائے گا،  اس جانورسے  جو بچے پیدا ہوجائیں، ہر ہر بچے میں زیداور عمرو برابر شریک ہوں گےاور اس طرح اس جانورکے دودھ میں بھی دونوں برابر شریک ہوں گے ۔

3۔۔  زید اور عمرو   دونوں پیسے ملا کرجانور خریدیں، اس میں ہر ایک اپنی مالیت کے بقدر شریک ہوگا ، اوراسی طرح  مالیت کے تناسب سے دونوں اس کے دودھ ، اور ہر ہر بچے میں بھی  شریک ہوں گے ، البتہ اس صورت میں اس طرح طے کرنا کہ پہلا بچہ ایک کا ہوگا اور دوسرا بچہ دوسرے کا ہوگا یہ شرعاً غلط ہے،دونوں ہر ہر بچے میں اپنے اپنے حصے کے بقدر شریک ہوں گے ۔

 فتاوی عالمگیری میں ہے:

"دفع بقرةً إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافاً فالإجارة فاسدة".

(4/۵۰4، کتاب الإجارة، الفصل الثالث في قفيز الطحان وما هو في معناه، ط: رشیديه)

خلاصۃ الفتاوی ہے :

" رجل دفع بقرةً إلى رجل بالعلف مناصفةً وهي التي تسمى بالفارسية "كاونيم سوو" بأن دفع على أن ما يحصل من اللبن والسمن بينهما نصفان، فهذا فاسد، والحادث كله لصاحب البقرة والإجارة فاسدة".

(خلاصة الفتاوی، ۳/۱۱4، کتاب الإجارة، الجنس الثالث في الدواب ومایتصل بها، ط/قدیمی)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وَلَا خِلَافَ في شَرِكَةِ الْمِلْكِ أَنَّ الزِّيَادَةَ فيها تَكُونُ على قَدْرِ الْمَالِ حتى لو شَرَطَ الشَّرِيكَانِ في مِلْكِ مَاشِيَةٍ لِأَحَدِهِمَا فَضْلًا من أَوْلَادِهَا وَأَلْبَانِهَا لم تَجُزْ بِالْإِجْمَاعِ".

(6/6۲، کتاب الشرکة، فَصْلٌ وَأَمَّا بَيَانُ شَرَائِطِ جَوَازِ هذه الْأَنْوَاعِ، ط:سعید)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"بِخِلَافِ الزَّوَائِدِ فَإِنَّهَا تَتَوَلَّدُ مِنْ الْمِلْكِ فَإِنَّمَا تَتَوَلَّدُ بِقَدْرِ الْمِلْكِ".

(المبسوط للسرخسی، ۱۵/6، کتاب القسمة، ط: دار المعرفة – بيروت، تاريخ النشر: 1414هـ = 1993م)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200422

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں