ایک شخص کے پاس ایک بکری فارم ہے، اس میں ایک بوکا(مذکر بکرا جو بکریوں کو جفتی کرتا ہے) ہے اس بوکا کو فارم کے مالک نے بیس بزار روپے میں خریدا ہے جو افریقن نسل کاہے، ہر روز اس پر پچاس روپیہ خرچ ہوتا ہے، فارم کا مالک اپنے فارم کی تمام بکریوں کو اس سے جفتی کرواتا ہے اور جو لوگ باہر سے اپنی بکری لے کر آتے ہیں اس بکرے سے جفتی کروانے کے لیے ان سے پیسہ لیتا ہے، کیا اس شخص کا پیسہ لینا جائز ہے؟
بکرے کو اپنے فارم میں نسل بڑھانے کے لیے بکریوں سے جفتی کروانا اور اس مقصد کے لیے پالنا جائز ہے، لیکن اس بکرے کو جفتی کرنے اور نسل بڑھانے کے لیے کرایہ پر دینا یا دوسروں کی بکریوں سے جفتی کی اجرت لینا دینا دونوں ناجائز ہیں، حدیثِ مبارک میں اس سے ممانعت وارد ہوئی ہے۔ البتہ اجرت طے کیے بغیر بکریوں کا مالک ہدیہ کے طور پر یا جانور کے چارہ وغیرہ کے لیے کچھ دے، یا اس جانور کو کچھ کھلائے پلائے تو یہ جائز ہے۔
سنن الترمذي ت شاكر (3/ 564 و 565):
" عن نافع، عن ابن عمر قال: «نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن عسب الفحل». وفي الباب عن أبي هريرة، وأنس، وأبي سعيد: حديث ابن عمر حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند بعض أهل العلم، وقد رخص بعضهم في قبول الكرامة على ذلك.
و عن أنس بن مالك، أن رجلاً من كلاب سأل النبي صلى الله عليه وسلم عن عسب الفحل؟ «فنهاه» ، فقال: يا رسول الله، إنا نطرق الفحل فنكرم، «فرخص له في الكرامة»".
شرح مختصر الطحاوي للجصاص (3/ 97):
"قال: (ولايجوز بيع عسب الفحل).
قال أحمد: يعني ما يلقح، وذلك لأنه من الملاقيح، وقد نهى عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم. وروى ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم "نهى عن عسب الفحل". وقال جابر: "نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع ضرب الفحل".
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144201200812
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن