بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بکرے اور مارخور کے ملاپ سے پیدا ہونے والے جانور کی قربانی کا حکم


سوال

مار خور اور بکرے کے ملاپ سے جو  جانور  پیدا  ہوا، اس کی قربانی جائز ہے یا نہیں؟ 

جواب

واضح رہے کہ قربانی کے جانور شرعی طور پر متعین ہیں،  جن میں اونٹ، گائے، دنبہ، بھیڑ، بکرا، مینڈھا (مذکر ومؤنث ) شامل ہیں، بھینس گائے کی جنس میں سے ہے، لہذا اس کی قربانی بھی جائز ہے، اسی طرح آسٹریلین گائے بھی چوں کہ گائے ہے اس کی قربانی بھی درست ہے۔ ان کے علاوہ کسی اور  جانور کی قربانی درست نہیں ہوتی۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں بکرے اور مارخور کے ملاپ سے پیدا ہونے والا بچہ اگر بکرا یا بکری ہو تو اس کی قربانی جائز ہے، اور اگر وہ بچہ  مارخور ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں، اور جانور میں اعتبار ماں کا ہوتاہے، لہٰذا اگر مادہ مارخور سے بکرے (نر) کا ملاپ ہوا تو پیدا ہونے والا جانور ماں کے تابع ہوگا۔

یہ بھی ملحوظ رہے کہ مارخور حلال جانور ہے، البتہ وہ قربانی کا جانور نہیں ہے، اور ہر حلال جانور کی قربانی درست نہیں ہوتی، جیسے ہرن حلال جانور ہے لیکن اس کی قربانی درست نہیں ہے، اسی طرح ایک سال سے کم عمر بکری کا بچہ حلال ہے، لیکن اس کی قربانی درست نہیں ہے۔ 

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشِّلْبِيِّ  میں ہے:

"قَالَ - رَحِمَهُ اللَّهُ -: (وَالْأُضْحِيَّةُ مِنْ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ)؛ لِأَنَّ جَوَازَ التَّضْحِيَةِ بِهَذِهِ الْأَشْيَاءِ عُرِفَ شَرْعًا بِالنَّصِّ عَلَى خِلَافِ الْقِيَاسِ فَيَقْتَصِرُ عَلَيْهَا، وَيَجُوزُ بِالْجَامُوسِ؛ لِأَنَّهُ نَوْعٌ مِنْ الْبَقَرِ بِخِلَافِ بَقَرِ الْوَحْشِ حَيْثُ لَا يَجُوزُ التَّضْحِيَةُ بِهِ؛ لِأَنَّ جَوَازَهَا عُرِفَ بِالشَّرْعِ فِي الْبَقَرِ الْأَهْلِيِّ دُونَ الْوَحْشِيِّ، وَالْقِيَاسُ مُمْتَنِعٌ، وَفِي الْمُتَوَلِّدِ مِنْهُمَا تُعْتَبَرُ الْأُمُّ، وَكَذَا فِي حَقِّ الْحِلِّ تُعْتَبَرُ الْأُمُّ".

( كتاب الأضحية، مما تكون الأضحية، ۶ / ۷، ط: المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وَلَايَجُوزُ فِي الْأَضَاحِيّ شَيْءٌ مِنْ الْوَحْشِيِّ، فَإِنْ كَانَ مُتَوَلَّدًا مِنْ الْوَحْشِيِّ وَالْإِنْسِيِّ فَالْعِبْرَةُ لِلْأُمِّ، فَإِنْ كَانَتْ أَهْلِيَّةً تَجُوزُ وَإِلَّا فَلَا، حَتَّى لَوْ كَانَتْ الْبَقَرَةُ وَحْشِيَّةً وَالثَّوْرُ أَهْلِيًّا لَمْ تَجُزْ، وَقِيلَ: إذَا نَزَا ظَبْيٌ عَلَى شَاةٍ أَهْلِيَّةٍ، فَإِنْ وَلَدَتْ شَاةً تَجُوزُ التَّضْحِيَةُ، وَإِنْ وَلَدَتْ ظَبْيًا لَاتَجُوزُ، وَقِيلَ: إنْ وَلَدَتْ الرَّمَكَةُ مِنْ حِمَارٍ وَحْشِيٍّ حِمَارًا لَايُؤْكَلُ، وَإِنْ وَلَدَتْ فَرَسًا فَحُكْمُهُ حُكْمُ الْفَرَسِ، وَإِنْ ضَحَّى بِظَبْيَةٍ وَحْشِيَّةٍ أُنِسَتْ أَوْ بِبَقَرَةٍ وَحْشِيَّةٍ أُنِسَتْ لَمْ تَجُزْ".

( كتاب الأضحية، الْبَابُ الْخَامِسُ فِي بَيَانِ مَحَلِّ إقَامَةِ الْوَاجِبِ، ۵ / ۲۹۷، ط: دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144112200652

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں