بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بجری ریت میں پانی ڈال کر بیچنے کا شرعی حکم


سوال

 میری سمینٹ،  بجری،   کورسینٹ،  ریت وغیرہ کی دکان ہے جس میں ہمارا جو مال (یعنی کہ) بجری  اور ریت اس میں جہاں سے مال آتا ہے وہ جمنا ہے، خود اس میں پانی ہے اور اوپر سے گاڑی والے بھی مال میں پانی ڈال کر لاتے ہیں، ہمارا مال جب تک بکتا ہے تب پانی سوکھ جاتا ہے اور کم از کم 4000 کا نقصان ہو جاتا ہے، اس لیے ہم بھی پانی ڈال کر بیچتے ہیں، اگر ریٹ بڑھا کر بیچتے ہیں تو اور بھی 30 دکانیں ہیں وہ لوگ پانی ڈال کر کم قیمت میں بیچ دیتے ہیں، اب معلوم یہ کرنا ہے کیا اس طرح پانی ملا کر بیچنا کہاں تک صحیح ہے یا کوئی اور طریقہ ہو تو برائے مہربانی ارسال کر دیجیے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں   سمینٹ،  بجری ،   کورسینٹ،  ریت وغیرہ میں پانی  ، ملاکر بیچا جائے تو یہ ملاوٹ  اوردھوکا دہی ہے جو کہ جائز نہیں ہے،البتہ اگر ان لوگوں کو بتا دیا جائے کہ اس میں پانی ملا ہوا ہے،جس کی وجہ سے وزن میں زیادتی ہوئی ہے،تو پھر گنجائش ہوگی،۔ تاہم اصل یہ ہی ہے کہ بغیر ملاوٹ کے مال فروخت کیا جائے۔

صحیح مسلم  میں ہے:

"عن أبي هريرة؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة طعام. فأدخل يده فيها. فنالت أصابعه بللا. فقال "ما هذا يا صاحب الطعام؟ " قال: أصابته السماء. يا رسول الله! قال " أفلا جعلته فوق الطعام كي يراه الناس؟ ‌من ‌غش فليس مني"

 (صحيح مسلم، كتاب الإيمان، ‌‌ باب قول النبي صلى الله تعالى عليه وسلم " من غشنا فليس منا، ج:1، ص:99،رقم:101،   ط:دار إحياء التراث العربي)

ترجمہ:" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غلے کی ایک ڈھیری کے پاس سے گزرے توآپ نے اپنا ہاتھ اس میں داخل کیا، آپ کی انگلیوں نے نمی محسوس کی تو آپ نے فرمایا: ” غلے کے مالک! یہ کیا ہے؟“ اس نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! اس پر بارش پڑ گئی تھی۔ آپ نے فرمایا: ” توتم نے اسے (بھیگے ہوئے غلے) کو اوپر کیوں نہ رکھا تاکہ لو گ اسے دیکھ لیتے؟ جس نے دھوکا کیا، وہ مجھ سے نہیں۔“ (ان لوگوں میں سے نہیں جنہیں میرے ساتھ وابستہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔)

سنن ابن ماجہ میں ہے:

" حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا أبو نعيم، حدثنا يونس بن أبي إسحاق، عن أبي داود عن أبي الحمراء، قال: رأيت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - مر بجنبات رجل عنده طعام في وعاء، فأدخل يده فيه، فقال: "لعلك غششت، ‌من ‌غشنا فليس منا." 

(باب النهي عن بيع الطعام قبل أن يقبض، ج:3، ص:338، ط: دار الرسالة العالمية)

 

"ترجمہ:ابوالحمراء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ ایک شخص کے پاس سے گزرے جس کے پاس ایک برتن میں گیہوں تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس گیہوں میں ڈالا پھر فرمایا: ”شاید تم نے دھوکا دیا ہے، جو ہمیں دھوکا دے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔"

مجمع الزوائد میں ہے:

"وعن عبد اللہ بن مسعود قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من غشنا فلیس منا والمکر والخداع في النّار."

(كتاب البيوع، باب الغش، ج:4، ص:139، ط: دار الفكر)

"ترجمہ:سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے دھوکہ دیا، وہ ہم میں سے نہیں ہے اور مکر و فریب آگ (کا سبب) ہے۔"

 مرقاة المفاتيح میں ہے :

"(وعنه) أي عن أبي هريرة (أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مرّ على صبرة طعام) بضم الصاد المهملة وسكون الموحدة ما جمع من الطعام بلا كيل ووزن على ما في القاموس والمراد بالطعام جنس الحبوب المأكول (فأدخل يده فيها) أي في الصبرة (فنالت أصابعه) أي أدركت (بللا) بفتح الموحدة واللام (فقال ما هذا) أي البلل المنبئ غالبا على الغش من غيره (يا صاحب الطعام) أي بائعه (قال أصابته السماء) أي المطر لأنها مكانه وهو نازل منها قال الشاعر:

إذا نزل السماء بأرض قوم ... رعيناه وإن كانوا غضابا

(يا رسول الله) اعتراف بالإيمان وإقرار بالإذعان (قال: أفلا جعلته) قال: أسترت عينه أفلاجعلت البلل (فوق الطعام حتى يراه الناس!) فيه إيذان بأن للمحتسب أن يمتحن بضائع السوقة ليعرف المشتمل منها على الغشّ من غيره، (من غشّ) أي خان وهو ضد النصح (فليس مني) أي ليس هو على سنتي وطريقتي. قال الطيبي: من اتصالية كقوله تعالى: {المنافقون والمنافقات بعضهم من بعض} [التوبة: 67] (رواه مسلم) وروى الترمذي الجملة الأخيرة بلفظ " «من غش فليس منا» " ورواه الطبراني في الكبير وأبو نعيم في الحلية عن ابن مسعود بلفظ " «من غشّنا فليس منّا، والمكر والخداع في النار» ".

 (كتاب البيوع، باب المنهي عنها من البيوع،  ج:5، ص:1935 ، ط: دار الفكر، بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"لا يحل كتمان العيب في مبيع أو ثمن؛ لأن الغش حرام."

(كتاب البيوع، ج:5، ص:  47، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144405101203

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں