بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

باجماعت نماز کی ایک یا دو رکعت چھوڑنا


سوال

ایک شخص پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہے لیکن اس کی ہر نماز کے وقت جماعت سے ایک یا دو رکعت رہ جاتی ہیں اگر وہ جان بوجھ کر کوئی رکعت چھوڑ دے (تاخیر سے آئے)تو اس کے متعلق کیا حکم ہے اگر کسی عذرکی وجہ سے چھوٹ جائے تو اس کے متعلق کیا حکم ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ  ارکان و واجبات کے ساتھ سنت کے مطابق ادا کی گئی نماز مقبول ہوتی ہے، البتہ جماعت میں تاخیر سے پہنچنا اور بلاعذر   ایک یا دو  رکعت کے چھوٹنے کی عادت بنا لینا اچھا نہیں ہے،اور اگر عذرشرعی  کی وجہ سے چھوٹ جائے تو کوئی مضائقہ نہیں، شرعي اعذار درج ذيل ہیں:

(مریض، اپاہج، ہاتھ  پیر جس کا کٹا ہو،فالج زدہ ، بہت ہی بوڑھا عاجزکمزورہو، نابینااگرچہ کوئی قائد ہو، مسجد اور اس کے درمیان زیادہ کیچڑ یا بارش کا پانی حائل ہو، سخت ٹھنڈک ہو، سخت تاریکی میں جب کہ روشنی ٹارچ وغیرہ نہ ہو اور راستہ بھی صاف نہ ہو، سخت ترین آندھی  کی صورت میں ، مال کے ضائع ہونے کا خوف ہو ، پاخانہ پیشاب کے لگ جانے کی صورت میں ،  سفر کا ارادہ ہو،مریض  کی دیکھ بھال کرتاہو،شدید بھوک ہو اور کھانا سامنے ہے،تو ایسی صورتوں میں ترک جماعت جائز ہے۔)

شامي ميں ہے:

"(فلا تجب على مريض ومقعد وزمن ومقطوع يد ورجل من خلاف) أو رجل فقط، ذكره الحدادي (ومفلوج وشيخ كبير عاجز وأعمى) وإن وجد قائدا (ولا على من حال بينه وبينها مطر وطين وبرد شديد وظلمة كذلك) وريح ليلا لا نهارا، وخوف على ماله، أو من غريم أو ظالم، أو مدافعة أحد الأخبثين، وإرادة سفر، وقيامه بمريض، وحضور طعام (تتوقه) نفسه ذكره الحدادي، وكذا اشتغاله بالفقه لا بغيره."

(باب الامامۃ، ج:1، ص:556،555، ط:سعید)

جماعت سے نماز ادا کرنا اور تکبیر تحریمہ میں شریک ہونا بڑی فضیلت کی چیز ہے۔ جماعتِ مسجد کی صف اول کو ملائکہ کی صف کے برابر کہا گیا ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وإن الصف الاول علی مثل صف الملائکة."

(باب الجماعۃ وفضلہا، ج:1، ص:335، ط:المکتب الاسلامی -بیروت)

پہلی رکعت تک شامل ہوجانے سے تکبیر اولیٰ کی فضیلت حاصل ہوجاتی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"کما في الشامي: وقیل بإدراک الرکعة الاولیٰ، وهذا أوسع وهو الصحیح."

(ج:2، ص:240، ط: زکریا)

ایک حدیث میں آیا ہے کہ جس شخص نے چالیس دن تک تکبیر اولیٰ کے اہتمام کے ساتھ باجماعت نماز ادا کی، اس کے لیے دو برأت لکھ دی جاتی ہے: ایک برأت جہنم کی آگ سے دوسری نفاق سے۔

"عن أنس بن مالک رضی اللہ عنه قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم: من صلی للہ أربعین یوماً في جماعةٍ یدرک التکبیرة الاولیٰ کتب له برأتان: برأة من النار و برأة من النفاق." (ترمذي شریف)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308101149

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں