بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بجلی آفس کو بتائے بغیربجلی کا میٹر لگوانااور اس پر پیسے لینے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارہ میں کہ  (1) زید اپنے والد کے گھر میں رہتا ہے لیکن اس کا کھانا پینا الگ ہے وہ الگ سے اپنے لئے ایک بجلی میٹر لگوانا چاہتا ہے اس کے لئے اس نے بجلی آفس میں آن لائن ایپلیکیشن دی اور پیسے بھی جمع کر دئے لیکن بہت کوشش کے بعد بھی الگ سے میٹر نہیں لگا ۔آفس سے یہ کہا جارہا ہے کہ ایک ہی گھر میں دو میٹر نہیں لگ سکتے ہیں، آپ کو پہلے اپنا سب کچھ الگ کرنا ہوگا اور آپ کو اپنے نام پر گھر یا زمین کروانی ہوگی تب آپ کا الگ سے میٹر لگے گا ۔بکر نے زید سے کہا کہ میں آپ کا کام کرا دوں گا ،12000 لگیں گے، بکر بجلی آفس کے توسط سے ہی کچھ پیسے آفیسروں کو دیکر اور کچھ اپنے پاس رکھ کر زید کا الگ سے میٹر لگوا دیتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ 1. کیا زید کے لئے بکر کے ذریعہ میٹر لگوانا جائز ہے؟ اور بکر کا اس طرح کا کام کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اور اگر جائز نہیں ہے تو جو پیسے بکر نے اب تک اس طرح کمائے ہیں ان کا کیا کرے ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں بکر کا بجلی آفس کے قانون اور ضوابط سے ہٹ کر محض کچھ افسروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے  مذکورہ  طریقہ پر زید کا یا لوگوں کا کام کرنا  رشوت اور خیانت کے حکم میں ہے ،جو کہ ناجائز اور حرام ہے،اس لیے بکر کے لیے جائز نہیں کہ وہ 12000 روپے لے کر زید کے لیے ادارے کے ضوابط سے ہٹ کر بجلی کا میٹر لگوائے ،اور اب تک جو بکر نے پیسے لیے اس پر لازم ہے ،کہ جن جن سے اس طرح پیسے  لیے ہیں اگر وہ معلوم ہے، تو ان کے وہ پیسےانہیں کو  لوٹائے ،اور اگر ان کو لوٹانا   ممکن نہیں ہے ،تو ثواب کی نیت کے بغیر فقراء ومساکین پر صدقہ کر دے، اور  ساتھ ساتھ آئندہ کے لیے ایسا کرنے سے پکی اور سچی  توبہ استغفار بھی کرے ۔

فتح القدیر میں ہے:

"وفي شرح الأقطع: ‌الفرق ‌بين ‌الرشوة والهدية أن الرشوة يعطيه بشرط أن يعينه، والهدية لا شرط معها."

(کتاب ادب القاضی،272/7، ط:مطبعة مصطفي بابي حلبي)

فتاوی شامی میں ہے:

"وعلى هذا قالوا: لو مات الرجل وكسبه من بيع الباذق أو الظلم أو أخذ الرشوة يتورع الورثة، ولايأخذون منه شيئًا وهو أولى بهم و يردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه".

(كتاب الحظر و الإباحة، فصل في البيع، ج:6، ص:385، ط:ايج ايم سعيد)

معارف السنن میں ہے:

"قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة و غیرها: أن من ملك بملك خبیث، و لم یمكنه الرد إلى المالك، فسبیله التصدقُ علی الفقراء ... قال: و الظاهر أنّ المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولایرجو به المثوبة."

(أبواب الطهارة، باب ما جاء: لاتقبل صلاة بغیر طهور، ج:1، ص:34، ط: المکتبة الأشرفیة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"حيلة يحتال بها الرجل ليتخلص بها عن حرام أو ليتوصل بها إلى حلال فهي حسنة."

(کتاب الحیل، ج:6، ص:390، ط: مکتبه رشیدیه)

روح المعانی میں ہے :

"وهو الترك والتدارك- ‌والعزم ‌على ‌عدم العود، وكثيرا ما تطلق على الندم وحده لكونه لازما للعلم مستلزما للعمل. ،،،،وفي الحديث «الندم توبة»."

(ج:1،ص:238 ،ط:دارالكتب العلمية)

الموسوعة الفقهية الكويتية"  میں ہے:

"إن كان عامدا مختارا عالما بالحرمة، لا جاهلا أو مكرها أو ناسيا."

(‌‌أقسام النسيان‌‌،القسم الثاني،278/40،ط : وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية)

حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما  کے نزدیک توبہ نصوح یہ ہے: 

"الندم بالقلب، والاستغفار باللسان، والإقلاع بالبدن، والإضمار علی أن لا يعود."                

                         (القاموس الفقهی لغة واصطلاحاً، ص: 50)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144508100661

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں