بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پاجامہ ٹخنوں سے نیچے رکھنے کا حکم


سوال

اگر کوئی شخص  پاجامہ کو ٹخنوں کے نیچے سستی اور لاپرواہی کی وجہ سے لٹکا ہوا رکھے یا لٹکا چھوڑے رکھے، اور تکبر کی نیت نہ ہو کیا تب بھی گناہ ہوگا؟ اور پاجامہ ٹخنوں کے نیچے لٹکاۓ رکھنا جائز نہ ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ مردوں کے لیے شلوار یا پاجامہ  کے پائنچے ٹخنوں سے نیچے لٹکانا یارکھنا،چاہے سستی اور لاپرواہی کی وجہ سے ہو،اور چاہے تکبر کی وجہ سے ہو یا تکبر کی نیت سے نہ  ہو،مطلقاً ہر حال میں حرام اورگناہِ کبیرہ ہے،اور حدیث میں اس کے متعلق بہت سخت وعیدیں آئی ہیں ، البتہ اگر غلطی یا بھول سے نیچے رہ جائیں،تو پھر معاف ہے،تاہم ایسے شلوار /پاجامہ بنانے سے احتراز کرنا چاہیے، جس میں پائنچے ٹخنوں سے نیچے چلے جاتے ہوں۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن ‌ابن عمر رضي الله عنهما، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا ينظر الله إلى من جر ثوبه خيلاء."

ترجمہ:"حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص غرور وتکبر کے طور پر اپنے (بدن کے ) کپڑے کو زمین پر گھسیٹتا ہوا چلے گا ،قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف (رحمت وعنایت کی نظر سے ) نہیں دیکھے گا۔"(مظاہرِ حق )

(كتاب اللباس، باب قول الله تعالي قل من حرم زينة الله، ج:2 ص:383 ط: رحمانية)

وفيه أيضا:

"عن ‌أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «ما أسفل من الكعبين من الإزار ففي النار."

ترجمہ:"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ازقسم ازار (یعنی پائجامہ وغیرہ) کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہوگا،وہ دوزخ میں ڈالا جائے گا۔"(مظاہرِ حق )

(كتاب اللباس، باب ما أسفل من الكعبين فهو في النار، ج:2 ص:383 ط: رحمانية)

فیض الباری میں ہے:

"قوله: (من جر ثوبه خيلاء) وجر الثوب ممنوع عندنا مطلقا، فهو إذن من أحكام اللباس، وقصر الشافعية النهي على قيد المخيلة ، فإن كان الجر بدون التكبر، فهو جائز، وإذن لا يكون الحديث من أحكام اللباس والأقرب ما ذهب إليه الحنفية، لأن الخيلاء ممنوع في نفسه، ولا اختصاص له بالجر، وأما قوله صلى الله عليه وسلم لأبي بكر: «إنك لست ممن يجر إزاره خيلاء»، ففيه تعليل بأمر مناسب، وإن لم يكن مناطا فعلة الإباحة فيه عدم الاستمساك إلا بالتعهد، إلا أنه زاد عليه بأمر يفيد الإباحة، ويؤكدها. ولعل المصنف أيضا يوافقنا، فإنه أخرج الحديث في اللباس، وسؤال أبي بكر أيضا يؤيد ما قلنا، فإنه يدل على أنه حمل النهي على العموم، ولو كان عنده قيد الخيلاء مناطا للنهي، لما كان لسؤاله معنى. والتعليل بأمر مناسب طريق معهود. ولنا أن نقول أيضا: إن جر الإزار خيلاء ممنوع لمن يتمسك إزاره، فليس المحط الخيلاء فقط."

(كتاب اللباس، باب من جر ثوبه من الخيلاء، ج:6 ص:72 ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإسبال الإزار والقميص بدعة ينبغي أن يكون الإزار فوق الكعبين إلى نصف الساق."

(كتاب الكراهية، الباب التاسع في اللبس ما يكره من ذلك وما لا يكره، ج:5 ص:333 ط: رشيدية)

فتح الباری میں ہے:

"قال بن عبد البر مفهومه أن الجر لغير الخيلاء لا يلحقه الوعيد إلا أن جر القميص وغيره من الثياب مذموم على كل حال."

(كتاب اللباس، باب من جر ثوبه من الخيلاء، ج:10 ص:263 ط: دار المعرفة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506101711

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں