کسی چیز کی قیمت کم کروانے کی غرض سے خریدار کا اس میں طرح طرح کے عیب نکال کر قیمت کم کروانا درست ہے یا نہیں ؟
واضح رہے کہ شریعت نے تجارت کے موقع پر بھاؤ تاؤ کرنے کی اجازت دی ہے،لیکن محض سستا لینے کے لیے کسی چیز میں زبردستی عیب نکالنا،جب کہ حقیقیت میں عیب موجود نہ ہو،تو اس طرح سے کسی مسلمان کو نقصان دینا اور خود نفع حاصل کرنا جائز نہیں ہے،البتہ اگر عیب واقعۃًموجود ہو تو قیمت میں کمی کرانا جائز ہے۔
الہدایہ فی شرح بدایۃ المبتدی میں ہے:
"قال: البيع ينعقد بالإيجاب والقبول إذا كانا بلفظي الماضي، مثل أن يقول أحدهما: بعت، والآخر: اشتريت؛ لأن البيع إنشاء تصرف، والإنشاء يعرف بالشرع والموضوع للإخبار قداستعمل فيه فينعقد به. ولاينعقد بلفظين أحدهما لفظ المستقبل والآخر لفظ الماضي، بخلاف النكاح، وقد مر الفرق هناك. وقوله: رضيت بكذا أو أعطيتك بكذا أو خذه بكذا، في معنى قوله: بعت واشتريت؛ لأنه يؤدي معناه، والمعنى هو المعتبر في هذه العقود، ولهذا ينعقد بالتعاطي في النفيس والخسيس هو الصحيح؛ لتحقق المراضاة."
(كتاب البيوع، كيفية انعقاد البيع، ج:3 ص:23 ط: دار الإحياءالتراث العربی)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144501101686
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن