بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 جمادى الاخرى 1446ھ 04 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ، چھ بیٹے اور ایک بیٹی میں ترکہ کی تقسیم


سوال

مرحوم والد کا ایک گھر ہے، اس کے انتقال کے وقت ورثاء میں بیوہ، چھ بیٹے اور ایک بیٹی حیات تھی، پھر والدہ کا انتقال ہوا، ان کے ورثاء میں بھی یہی چھ بیٹے ہیں، اور ایک بیٹی ہے، مرحومین کے والدین کا انتقال ان سے پہلے ہو چکا تھا، اب پوچھنا یہ ہے کہ یہ گھر مرحومین کے ورثاء میں شرعاً کس طرح تقسیم کیا جائے گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مرحومین کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ کل ترکہ سے مرحومین کے حقوقِ متقدمہ (کفن دفن کے اخراجات) نکالنے کے بعد، اگر مرحومین کے ذمہ کوئی قرضہ ہو تو اسے ادا کرنے کے بعد، اور اگر مرحومین نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو بقیہ ترکہ کے ایک تہائی سے نافذ کرنے کے بعد باقی ترکہ (منقولہ و غیر منقولہ) کے کل 13 حصے کرکے 2، 2 حصے ہر ایک بیٹے کو اور ایک حصے بیٹی کو ملے گا۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

مرحومین(والدین):13

بیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹی
2222221

یعنی کل ترکہ (یا اس کی مالیت) میں سے 15.384 فی صد ہر ایک بیٹے کو اور 7.692 فی صد بیٹی کو ملے گا۔

فقط واللہ اَعلم  


فتوی نمبر : 144601101781

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں