ہمارے والد کا انتقال 2012ء میں ہوا ہے، ان کے ترکہ میں دبئی میں ایک دکان ہےجس کا کرایہ بھی آتا ہے، ہاکس بے میں چار سو (400)گز کی زمین ہے، اور جس گھر میں ہم رہتے ہیں وہ بھی والد صاحب کا ہے، والد صاحب کے ورثاء میں ایک بیوہ، تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، اب دریافت یہ کرنا ہے کہ مذکورہ ورثاء میں والد صاحب کا ترکہ کس طرح تقسیم ہوگا؟ اور میرا حصہ کتنا بنے گا؟
نیز ہمارے گھر والے مجھے گھر میں رکھنانہیں چاہتے، نہ میری شادی کرارہے ہیں جب کہ میری عمر اڑتیس سال ہے، اور مجھ پر الزام لگاتے ہیں کہ تم گھر میں جنات لاتے ہو، یوں میں بند کمرے کی زندگی گزار رہا ہوں، اب میں اپنے والد کی جائیداد میں سے اپنا حصہ لینا چاہتا ہوں تاکہ میں اپنی زندگی سکون سے گزار سکوں، لیکن گھر والے مجھے وراثت تقسیم کرکے نہیں دے رہے، میرے دونوں بھائی دبئی میں ہیں، لیکن میں کسی وجہ سے دبئی نہیں جا سکتا تو اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دبئی کی دکان کا کرایہ بھی دیگر بہن بھائیوں میں تقسیم ہوتا ہے اور مجھے نہیں دیا جاتا۔میری راہ نمائی فرمائیے کہ گھر والوں کا اس طرح کرنا کیا شرعاً درست ہے؟
صورت مسئولہ میں والد مرحوم کے ترکہ میں سائل سمیت تمام ورثاء اپنے اپنے شرعی حصے کے بقدر حق دار ہیں، دیگر ورثاء کا وراثت کے مال سے فائدہ اٹھانا اور ایک وارث کو محروم رکھنا شرعاً ناجائز اور گناہِ کبیرہ ہے، اس سے اجتناب لازم ہے، اور ورثاء میں سے جب ایک وارث میراث کی تقسیم کا مطالبہ کرے تو دیگر ورثاء پر اس وارث کو اس کا شرعی حصہ دینا لازم اور ضروری ہے۔
لہٰذا سائل اگر والدہ کی میراث میں اپنے حصے کا مطالبہ کر رہا ہے تو یہ سائل کا حق ہے، دیگر ورثاء پر اسے اس کا شرعی حصہ دینا لازم ہے، اس میں ٹال مٹول کرنا یا حصہ دینے سے انکار کرنا جائز نہیں۔
والد مرحوم کی میراث تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ:
سب سے پہلے کل ترکہ سے مرحوم کے حقوقِ متقدمہ (کفن دفن کے اخراجات) نکالنے کے بعد، اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرضہ ہو تو اسے ادا کرنے کے بعد، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو بقیہ ترکہ کے ایک تہائی سے نافذ کرنے کے بعد باقی ترکہ (منقولہ و غیر منقولہ) کے کل 72 حصے کرکے 9 حصے بیوہ کو، 14، 14 حصے ہر ایک بیٹے کو (جن میں سائل بھی شامل ہے)اور 7، 7 حصے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔
صورتِ تقسیم یہ ہے:
میت:8/ 72
بیوہ | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
1 | 7 | |||||
9 | 14 | 14 | 14 | 7 | 7 | 7 |
یعنی کل ترکہ میں سے 12.5 فی صد بیوہ کو، 19.44 فی صد ہر ایک بیٹے کو اور 9.72 فی صد ہر ایک بیٹی کو ملے گا۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"وعن أنس رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من قطع ميراث وارثه، قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة . رواه ابن ماجه."
(كتاب البيوع، باب الوصايا، الفصل الثالث، 1/ 272، ط:رحمانية)
”(ترجمہ)جو شخص اپنے وارث کی میراث کو کاٹے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت والی میراث کاٹ دے گا۔ “(مظاہرِ حق)
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه . رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى."
(باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، 1/ 260، ط:رحمانية)
”(ترجمہ)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خبردار کسی پر ظلم نہ کرنا اچھی طرح طرح سنو کہ کسی دوسرے شخص کا مال اس کی خوشی کے بغیر حلال نہیں ہے۔“ (مظاہرِ حق)
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أخذ شبرا من الأرض ظلما فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين ."
(باب الغصب والعارية، الفصل الأول، 1/ 261، ط:رحمانية)
”(ترجمہ) جو شخص کسی کی ایک بالشت زمین ظلماً دبالے گا قیامت کے دن وہ زمین سات زمینوں تک اس کی گردن میں بطور طوق ڈال دی جائے گی۔“ (مظاہرِ حق)
درر الحکام (شرح المجلة) میں ہے:
"المادة (1130) - (إذا طلب أحد الشريكين القسمة وامتنع الآخر فيقسمه القاضي جبرا إن كان المال المشترك قابلا للقسمة وإلا فلا يقسمه (1) على ما يبين في الفصل الثالث والرابع) يشترط في قسمة القضاء أن يكون المال المشترك قابلا للقسمة فلذلك إذا طلب أحد الشريكين القسمة وامتنع الآخر عنها فيقسمه القاضي جبرا أي حكما إذا كان المال المشترك قابلا للقسمة؛ لأن القسمة هي لتكميل المنفعة والتقسيم في المال القابل للقسمة أمر لازم (مجمع الأنهر)."
(الكتاب العاشر الشركات، باب في بيان القسمة، الفصل الثاني في بيان شرائط القسمة، 3/ 128، دار الجيل بيروت)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144602100098
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن