بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیع الوفا کی ایک صورت


سوال

زید پلاٹ بیچنے کا کاروبار کرتا ہے۔ اس نے کسی شخص کے ہاتھ اس شرط پر پلاٹ بیچے کہ چھ ماہ کے اندر اندر وہ لی گئی رقم پر متعین اضافہ کر کے پیسے واپس کرے گا اور اپنے پلاٹ واپس لے گا۔ معاہدے کے دفعات مندرجہ ذیل ہیں۔

١۔ معاہدہ چھ ماہ کے عرصہ کیلئے ہوگا۔

٢۔ فی مرلہ قیمت ایک لاکھ ایک ہزار(101,000)روپے رکھی گئی۔

٣۔ چھ مہینے بعد زید ایک لاکھ آٹھ ہزار (108,000) روپے فی مرلہ کے حساب سے پلاٹ واپس خریدے گا ۔

۴۔ اگر وہ شخص چھ مہینے سے پہلے پیسے مانگتا ہے تو ایک لاکھ آٹھ ہزار (108,000) روپوں کی بجائے ایک لاکھ چھ ہزار(106,000) روپے فی مرلہ کے حساب سے پیسے دیے جائیں گے۔ ۵۔ اگر زید معاہدہ کے مقررہ وقت تک پیسے ادا نہ کر سکے تو دو ہزار (2,000) روپے فی مرلہ ہر مہینے اضافہ ہوتا رہے گا۔ جو کے پہلے ایک لاکھ آٹھ ہزار(108,000) روپے رکھی گئی تھی۔

کیا یہ معاہدہ شرعی اعتبار سے جائز ہے؟ اگر نہیں تو تفصیلی فتویٰ دے دیں۔ اور اس صورتحال میں جائز معاہدہ کیا ہوگا؟

جواب

صورت مسئولہ میں سوال میں جو صورت ذکر کی گئی ہے اس کو فقہی اصطلاح میں بیع الوفایابیع بالوفاکہا جاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ دراصل یہ معاملہ بیع (خریداری) کے بجائے قرض کے بدلہ رہن سے فائدہ اٹھانے کا ہے جو کہ سود کے زمرے میں آنے کی وجہ سے ناجائز ہےاگر زید نے اس طرح کا معاملہ کر لیا ہے تو اسے فورا ختم کر دینا چاہیے اوراس پر  اللہ تعالی سے توبہ و استغفار کرے ۔البتہ اگر پہلے سے کوئی معاہدہ نہ ہو اور پلاٹ خریدنے والا  زید کو وہ پلاٹ عام طریقہ پر  بیچ دے تو یہ صورت جائز ہے۔

مشکوۃ المصابیح میں ہے :

"وعن أبي بردة بن أبي موسى قال: قدمت المدينة فلقيت عبد الله بن سلا م فقال: إنك بأرض فيها الربا فاش إذا كان لك على رجل حق فأهدى إليك حمل تبن أو حمل شعير أو حبل قت ‌فلا ‌تأخذه فإنه ربا. رواه البخاري"

(کتاب البیوع ، باب الربا جلد  ۲ ص : ۸۶۰ ط : المکتب الاسلامي ۔ بیروت)

ترجمہ:"اور حضرت ابو بردہ ابن موسی رحمۃ اللہ علیہ (تابعی) کہتے ہیں کہ جب میں مدینہ میں آیا اور حضرت عبداللہ ابن سلام رضی اللہ عنہ(صحابی) سے ملا تو انہوں نے فرمایا کہ تم ایک ایسی سرزمین پرہو جہاں سود کا بہت رواج ہے لہذا اگر کسی پر تمہارا حق ہو یعنی کوئی تمہارا قرض دار ہو اور وہ تمہیں بھوسے کا ایک گھڑا یا جو ایک گھٹری، یا گھانس کا ایک گٹھا بھی تحفہ کے طور پر دے تو تم اسے قبول نہ کرنا کیوں کہ وہ سود کا حکم رکھتا ہے۔"(بخاری)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه ‌كل ‌قرض جر نفعا حرام."

(کتاب البیوع ، فصل فی القرض جلد ۵ ص : ۱۶۶ ط : دار الفکر)

و فیہ ایضا:

"ومفاده أنهما لو تواضعا على الوفاء قبل العقد ثم عقدا خاليا عن شرط الوفاء فالعقد جائز ولا عبرة للمواضعةوبيع الوفاء ذكرته هنا تبعا للدرر: صورته أن يبيعه العين بألف على أن ه إذا رد عليه الثمن رد عليه العين، وسماه الشافعية بالرهن المعاد، ويسمى بمصر بيع الأمانة، وبالشام بيع الإطاعة، قيل هو رهن فتضمن زوائده، وقيل بيع يفيد الانتفاع به، وفي إقالة شرح المجمع عن النهاية: وعليه الفتوى وقيل إن بلفظ البيع لم يكن رهنا، ثم إن ذكرا الفسخ فيه أو قبله أو زعماه غير لازم كان بيعا فاسدا

مطلب في بيع الوفاء.

ووجه تسميته بيع الوفاء أن فيه عهدا بالوفاء من المشتري بأن يرد المبيع على البائع حين رد الثمن، وبعض الفقهاء يسميه البيع الجائز، ولعله مبني على أنه بيع صحيح لحاجة التخلص من الربا حتى يسوغ المشتري أكل ريعه، وبعضهم يسميه بيع المعاملة. ووجهه أن المعاملة ربح الدين وهذا يشتريه الدائن لينتفع به بمقابلة دينه. (قوله: وصورته إلخ) كذا في العناية، وفي الكفاية عن المحيط: هو أن يقول البائع للمشتري بعت منك هذا العين بما لك علي من الدين على أني متى قضيته فهو لي اهـ. وفي حاشية الفصولين عن جواهر الفتاوى: هو أن يقول بعت منك على أن تبيعه مني متى جئت بالثمن فهذا البيع باطل وهو رهن، وحكمه حكم الرهن وهو الصحيح اهـ. فعلم أنه لا فرق بين قوله على أن ترده علي أو على أن تبيعه مني. (قوله: بيع الأمانة) وجهه أنه أمانة عند المشتري بناء على أنه رهن أي كالأمانة.......(قوله: قيل هو رهن) قدمنا آنفا عن جواهر الفتاوى أنه الصحيح. قال في الخيرية: والذي عليه الأكثر أنه رهن لا يفترق عن الرهن في حكم من الأحكام. وقال السيد الإمام: قلت: للإمام الحسن الماتريدي: قد فشا هذا البيع بين الناس، وفيه مفسدة عظيمة، وفتواك أنه رهن وأنا أيضا على ذلك فالصواب أن نجمع الأئمة ونتفق على هذا ونظهره بين الناس، فقال المعتبر اليوم فتوانا، وقد ظهر ذلك بين الناس فمن خالفنا فليبرز نفسه وليقم دليله اهـ. قلت: وبه صدر في جامع الفصولين فقال رامزا لفتاوى النسفي: البيع الذي تعارفه أهل زماننا احتيالا للربا وسموه بيع الوفاء هو رهن في الحقيقة لا يملكه ولا ينتفع به إلا بإذن مالكه، وهو ضامن لما أكل من ثمره وأتلف من شجره ويسقط الدين بهلاكه لو بقي ولا يضمن الزيادة وللبائع استرداده إذا قضى دينه لا فرق عندنا بينه وبين الرهن في حكم من الأحكام اهـ، ثم نقل ما مر عن السيد الإمام. وفي جامع الفصولين: ولو بيع كرم بجنب هذا الكرم فالشفعة للبائع لا للمشتري؛ لأن بيع المعاملة وبيع التلجئة حكمهما حكم الرهن وللرهن حق الشفعة وإن كان في يد المرتهن."

(کتاب البیوع ، باب الصرف جلد ۵ ص : ۲۷۵ ، ۲۷۶ ، ۲۷۷ ط : دارالفکر)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144311100319

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں