بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ربیع الثانی 1446ھ 15 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بیت الخلا میں بات کرنے سے ممانعت کی کیا وجہ ہے؟


سوال

بیت الخلاء میں بات نہ کرنے کی وجہ کیا ہے؟

جواب

بیت الخلا  میں گندگی اور ستر کے کھلے ہونے کی حالت ہوتی ہے، ستر کھلے ہونے کی حالت میں گفت و شنید کی ممانعت احادیث میں وارد ہوئی ہے، پس بلا ضرورت بیت الخلا  میں بات کرنے کو فقہائے کرام نے مکروہ قرار دیا ہے،  لہٰذا بیت الخلا  یا  غسل خانے میں  اگر ستر کھلا ہوا ہو تو باتیں کرنا مکروہ ہوگا، تاہم اگر ستر کھلا نہ،  تب بھی غیر ضروری باتیں کرنا ادب کے خلاف ہے،البتہ کسی مجبوری کی بنا پر بات کی جا سکتی ہے۔

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"٣٤٢ - حدثنا محمد بن يحيى قال: حدثنا عبد الله بن رجاء قال: أنبأنا عكرمة بن عمار، عن يحيى بن أبي كثير، عن هلال بن عياض، عن أبي سعيد الخدري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لايتناجى اثنان على غائطهما، ينظر كل واحد منهما إلى عورة صاحبه، فإن الله عز وجل يمقت على ذلك»."

( كتاب الطهارة وسننها، باب النهي عن الاجتماع على الخلاء والحديث عنده، ١/ ١٢٣، ط: دار إحياء الكتب العربية)

ترجمہ: " حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " قضائے حاجت کے وقت دو آدمی آپس میں کانا پھوسی نہ کریں کہ آپس میں ہر ایک دوسرے کی شرمگاہ دیکھ رہا ہو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اس سے سخت ناراض ہوتا ہے۔"

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور میں ہے:

" و يستحب أن لا يتكلم بكلام معه ولو دعاء لأنه في مصب الأقذار ويكره مع كشف العورة.

قوله: "و يستحب أن لا يتكلم بكلام معه و لو دعاء" أي هذا إذا كان غير دعاء بل و لو دعاء أما الكلام غير الدعاء فلكراهته حال الكشف كما في الشرح و أما الدعاء فلما ذكره المؤلف."

( كتاب الطهارة، فصل وآداب الإغتسال، ص: ١٠٥ - ١٠٦، ط: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

" (قوله: و آدابه كآدابه) نص عليه في البدائع: قال الشرنبلالي: و يستحب أن لا يتكلم بكلام مطلقا، أما كلام الناس فلكراهته حال الكشف، و أما الدعاء فلأنه في مصب المستعمل و محل الأقذار و الأوحال اهـ.

أقول: قد عد التسمية من سنن الغسل فيشكل على ما ذكره تأمل. و استشكل في الحلية عموم ذلك بما في صحيح مسلم عن «عائشة - رضي الله عنها - قالت كنت أغتسل أنا ورسول الله صلى الله عليه وسلم من إناء بيني وبينه واحد، فيبادرني حتى أقول دع لي» وفي رواية النسائي «يبادرني وأبادره حتى يقول دعي لي وأقول أنا دع لي» " ثم أجاب بحمله على بيان الجواز أو أن المسنون تركه ما لا مصلحة فيه ظاهرة. اهـ. أقول: أو المراد الكراهة حال الكشف فقط كما أفاده التعليل السابق، والظاهر من حاله عليه الصلاة والسلام أنه لايغتسل بلا ساتر."

( كتاب الطهارة، سنن الغسل، مطلب سنن الغسل، ١ / ١٥٦، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100118

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں