بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹوں کا والد صاحب کو بغیر کسی صراحت کے رقم دینے کا حکم


سوال

میرے والد صاحب کے چار بیٹے ، دو بیٹیاں اور بیوہ ہیں ،میرے والد صاحب نے 1994 میں ایک پلاٹ ایک لاکھ پچاس ہزار کا لیا تھا ،پھر والد صاحب نے اس پر پہلے مرحلہ میں 1997 میں گراؤنڈ فلور اور پہلی منزل بنائی ،اس کے لیے پہلے دو بیٹوں نے والد صاحب کو اس مد میں کچھ رقم دی تھی،لیکن کوئی زبانی یا تحریری طور کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا ،نہ پیسے دیتے وقت کوئی صراحت ،پھر والد صاحب نے اس پر مزید دو منزل بنائی ،اس میں بھی دو بھائیوں نے کچھ رقم دی لیکن کوئی صراحت وغیرہ نہیں تھی ،نہ ہی کوئی معاہدہ تھا ،ابھی والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے ،چونکہ گھر والدہ کے نام پر ہےاس لیے والدہ نے بطور مشورہ کے سب سے رائے لی کہ اس مکان کو شرعی طور پر تقسیم کرنے کے لیے کیا کریں؟تو سب سے بڑے بیٹے جنہوں نے والد صاحب کو تعمیر کے وقت پیسے بھی دئے تھے کہا کہ دوسری منزل  مجھے دی جائے ،یا اگر گھر بیچتے ہو تو شرعی حصہ اور اسی لاکھ مزید مجھے دیے جائیں ،جب ان سے اس بارے میں دریافت کیا کہ ایسا کیوں ؟تو انہوں نے ہمیں کچھ رسیدیں دکھائیں کہ انہوں نے ایک لاکھ اسی ہزار روپے لون لیا تھا اور والد صاحب کو دیا تھا پہلی دفعہ تعمیر میں اور دوسری دفعہ تعمیر کے وقت چالیس ہزار روپے دیے تھے ۔لیکن دوسرے بیٹے جنہوں نے تعمیر میں رقم خرچ کی تھی ،وہ تو شرعی حساب سے تقسیم کا کہہ رہے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ :

1)کیا بڑے بھائی کا اس مطالبہ کرنا درست ہے ؟

2)اگر  تمام ورثاء عاقل بالغ بوجہ مجبوری دوسرے بھائی کو دوسری منزل دینے پر راضی ہو جاتے ہیں اور والدہ ان کے نام کر دیتی ہیں  اور بقیہ مکان بیچ کر اس کی رقم کو اس کے علاوہ بقیہ ورثاء میں تقسیم کردیں تو یہ جائز ہے کیونکہ بڑا بھائی اس کے بغیر  جائیداد کو تقسیم نہیں ہونے دے گا ۔

نوٹ :مکان کی قیمت تقریبا تین کروڑ پچاس لاکھ ہے اگر دوسری منزل بڑے بھائی کو دیں تو اس کو ہٹا کر قیمت دو کروڑ چالیس لاکھ ہے ۔

جواب

1)صورت مسئولہ میں اگر واقعۃ دونوں بھائیوں نے تعمیر کی مد میں والد کو رقم دیتے وقت کوئی صراحت نہیں کی تھی تو یہ رقم دونوں بھائیوں کی طرف سے بطور تبرع تھی ،اب انہیں اس کے واپس لینے کا حق نہیں ہے،لہذا  یہ مکان اور اس کی تعمیر والد صاحب کی ہی ملکیت تھی اور والد کے انتقال کے بعد یہ مکان اور تعمیر  تمام ورثاء میں شرعی اعتبار سے تقسیم ہوگی ۔

صورت تقسیم یہ ہے:

میت والد 8 / 80

بیوہ بیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹی
17
101414141477

یعنی 100 فیصد میں سے بیوہ کو 12.5 فیصد ،ہر ایک بیٹے کو 17.5 فیصد اور ہر ایک بیٹی کو 8.75 فیصد ملے گا ۔تین کروڑ پچاس لاکھ میں سے بیوہ کو 4375000 روپے ،ہر ایک بیٹے کو 6125000 روپے اور ہر ایک بیٹی کو 3062500 روپے ملیں گے ۔

2)اگر فساد کو ختم کرنے کی غرض سے تمام ورثاء  اپنی رضامندی سے اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ دوسری منزل مذکورہ بھائی کو دے دی جائے اور بقیہ رقم دو کروڑ چالیس لاکھ بقیہ ورثاء میں تقسیم کردیں تو یہ بھی درست ہے تاہم ورثاء پر ایسا کرنا لازم نہیں ہے۔

صورت تقسیم یہ ہوگی :

میت والد 8 / 80 / 66

بیوہ بیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹی
17
1014(تخارج)14141477

یعنی 100 فیصد میں سے بیوہ کو 15.151 فیصد ،ہر ایک بیٹے کو 21.212 فیصد اور ہر ایک بیٹی کو 10.606 فیصد ہر ایک بیٹی کو ملے گا ۔دو کروڑ چالیس لاکھ میں سے بیوہ کو 3636363.636 روپے ،ہر ایک بیٹے کو 5090909.090 روپے اور ہر ایک بیٹی کو 2545454.545 روپے ملیں گے ۔اور بڑے بیٹے کو اس میں سے کچھ نہیں ملے گا ۔

العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:

        "المتبرع ‌لايرجع بما تبرع به على غيره، كما لو قضى دين غيره بغير أمره."

(کتاب المداینات ج:2 /ص:226 /ط:دار المعرفۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100766

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں