میں 68 سال کا ہوں، میری اولاد تین لڑکے اور پانچ لڑکیاں ہیں اور میری اہلیہ بھی حیات ہے، میری جائیداد اتنی نہیں ہے کہ ہر ایک بیٹے اور بیٹی کو زیادہ زیادہ مل جائے، آئندہ میں اپنے بچوں کے لیے کوئی پریشانی نہیں چھوڑنا چاہتا، مجھے اللہ پاک پر مکمل بھروسہ ہے کہ وہ روزی دیتا ہے، میں اپنی بیوی اور بچیوں کی اجازت سے یہ وصیت لکھ رہا ہوں کہ میرے انتقال کے بعد میرا سب کچھ میرے بیٹوں کی ملکیت ہوگا، میں بخوشی ان کو بخشتا ہوں، زمانے کے ماحول کو دیکھتے ہوئے میں نہیں چاہتا کہ میری اولاد عدالتوں میں جائے، اللہ بیٹیوں کو مزید خوشیاں نصیب کرے، میں چار ایکڑ زرعی زمین کا مالک ہوں۔
دریافت یہ کرنا ہے کہ کیا شرعاً میرا یہ عمل درست ہے؟
صورتِ مسئولہ میں بیٹیوں کو اپنے ترکے سے محروم کر کےصرف بیٹوں کے لیے اپنی تمام جائیداد کی وصیت کرنا سائل کے لیے شرعاً ناجائز ہے، شریعت نے والد کی میراث میں جس طرح بیٹوں کا حصہ مقرر کیا ہے اسی طرح بیٹیوں کو بھی حصہ دار قرار دیا ہے، سائل کو جب اللہ پر مکمل بھروسہ ہے کہ روزی اللہ تعالٰی دیتا ہے تو سائل کو چاہیے کہ وہ بیٹوں کی خاطر اپنے ترکے سے متعلق غیر شرعی وصیت نہ کرے، سائل اگر اس طرح کی وصیت کر بھی دے گا تب بھی یہ وصیت شرعاً غیر نافذ العمل ہوگی الا یہ کہ سائل کے انتقال کے بعد بقیہ ورثاء اس وصیت کو نافذ کرنے پر بخوشی راضی ہوجائیں، لہذا سائل اپنے ترکے کی شرعی تقسیم پر خود بھی راضی رہے اور ورثاء کو بھی اسی کی تلقین کرے،تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو، اور اگر سائل اپنی اولاد کے بارے میں باہمی ناانصافی کا خطرہ محسوس کرتا ہو تو پھر ان کے لئے وصیت نامہ چھوڑ دے کہ میرے مرنے کے بعد میری جائیداد اللہ کے قانون کے مطابق تقسیم کریں، بصورت دیگر آخرت میں جوابدہی کرنی پڑےگی۔
مشکوۃ المصابیح میں ہے:
"عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة . رواه ابن ماجه۔"
(مشکوۃ المصابیح، ج: 2، کتاب الفرائض، باب الوصایا، الفصل الثالث، ص: 926، ط: المکتب الاسلامی)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"لا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة۔"
(فتاوی ہندیہ، ج: 6، کتاب الوصایا، الباب الاول، ص: 90، ط: مکتبہ رشیدیہ)
فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144306100009
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن