بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹی کے جہیز کے لیے خریدے گئے سامان کی ملکیت


سوال

اگر والد  نے بچی کے  لیے جہیز کی چیزیں بنائیں تو وہ چیزیں بچی کی ملکیت سمجھی جائیں  گی یا والد کی ملکیت ؟ اگر والد کہتاہے کہ میں نے وہ چیزیں بچی کی ملکیت میں دے دی ہیں تو اس کے صرف اتنا کہنے سے وہ چیزیں بچی کی ملیکت میں چلی جائیں گی یا باپ کی ملکیت میں ہی رہیں گی ؟

جواب

 نابالغ بچے یا بچی کو ہبہ کرنے کی نیت سے والد جو کچھ خریدتے ہیں، خریدنے کے  ساتھ  ہی بچہ / بچی کی ملکیت ثابت ہوجاتی ہے، البتہ بالغ اولاد کے  لیے جو کچھ خریدا جاتا ہے، اس پر اس کی ملکیت اس وقت تک ثابت نہیں ہوتی جب تک کہ وہ اس پر قبضہ نہ کرلے، پس صورتِ  مسئولہ میں بالغہ بیٹی کے جہیز کے  لیے والد نے جو کچھ بھی خریدا ہو  جب تک والد وہ اشیاء بیٹی کے قبضہ و اختیار میں نہیں دے گا اس وقت تک اس پر  شرعًا والد کی ہی ملکیت رہےگی اگرچہ زبانی  طور پر والد کہہ  دے  کہ  یہ میں نے بیٹی کو دے دی ہے۔

 مجلة الأحكام العدلية میں ہے:

" (المادة 850) إذا وهب أحد لابنه الكبير العاقل البالغ شيئا يلزم التسليم والقبض.

(المادة 851) يملك الصغير المال الذي وهبه إياه وصيه أو مربيه يعني من هو في حجره وتربيته سواء أكان المال في يده أم كان وديعة عند غيره بمجرد الإيجاب أي بمجرد قول الواهب: وهبت , ولا يحتاج إلى القبض".

( الباب الأول: بيان المسائل المتعلقة بعقد الهبة، الفصل الأول: في بيان المسائل المتعلقة بركن الهبة وقبضها، ١ / ١٦٤، ط: نور محمد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206201096

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں