والدہ کے پاؤں پر تیل سے مالش یا پاؤں دبانا یا والدہ کا کندھا دبانا خدمت کی عرض سے، بیٹے کے لیے اس قسم کی خدمت کا کیا حکم ہے؟
عام حالات میں بیٹے کے لیے اپنی والدہ کی جسمانی خدمت کرنا (مثلًا ہاتھ، پیر، کاندھا وغیرہ دبانا یا سر پر مالش کرنا) جائز ہے، بشرطیکہ بیٹا والدہ کی ستر کی جگہوں (مثلًا سینہ اور ران وغیرہ ) کو نہ چھوئے۔ البتہ اگر کسی جگہ ماں بیٹے کے خاص احوال کی وجہ سے اور قرائن و شواہد کی بنیاد پر فتنہ کا امکان ہو تو اس صورت میں بیٹے کے لیے والدہ کی جسمانی خدمت کرنا جائز نہیں ہوگا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 367):
"(وما حل نظره) مما مر من ذكر أو أنثى (حل لمسه) إذا أمن الشهوة على نفسه وعليها؛ «لأنه عليه الصلاة والسلام كان يقبّل رأس فاطمة»، و قال عليه الصلاة والسلام: «من قبّل رجل أمّه فكأنّما قبّل عتبة الجنة»، و إن لم يأمن ذلك أو شكّ، فلايحلّ له النظر والمسّ، كشف الحقائق لابن سلطان والمجتبى (إلا من أجنبية) فلايحلّ مسّ وجهها وكفّها وإن أمن الشهوة؛ لأنه أغلظ، ولذا تثبت به حرمة المصاهرة، وهذا في الشابة."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144202200277
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن