بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹے کے لیے والدہ کی جسمانی خدمت کرنے کا حکم


سوال

والدہ کے پاؤں پر تیل سے مالش یا پاؤں دبانا یا والدہ کا کندھا دبانا خدمت کی عرض سے، بیٹے کے لیے اس قسم کی خدمت کا کیا حکم ہے؟

جواب

عام حالات میں بیٹے کے لیے اپنی والدہ کی جسمانی خدمت کرنا (مثلًا ہاتھ، پیر، کاندھا وغیرہ دبانا یا سر پر مالش  کرنا) جائز ہے، بشرطیکہ بیٹا والدہ کی ستر کی جگہوں (مثلًا سینہ اور ران وغیرہ ) کو نہ چھوئے۔ البتہ اگر کسی جگہ ماں بیٹے کے خاص احوال کی وجہ سے اور قرائن و شواہد کی بنیاد پر  فتنہ کا  امکان ہو تو اس صورت میں بیٹے کے لیے والدہ کی جسمانی خدمت کرنا جائز نہیں ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 367):

"(وما حل نظره) مما مر من ذكر أو أنثى (حل لمسه) إذا أمن الشهوة على نفسه وعليها؛ «لأنه عليه الصلاة والسلام كان يقبّل رأس فاطمة»، و قال عليه الصلاة والسلام: «من قبّل رجل أمّه فكأنّما قبّل عتبة الجنة»، و إن لم يأمن ذلك أو شكّ، فلايحلّ له النظر والمسّ، كشف الحقائق لابن سلطان والمجتبى (إلا من أجنبية) فلايحلّ مسّ وجهها وكفّها وإن أمن الشهوة؛ لأنه أغلظ، ولذا تثبت به حرمة المصاهرة، وهذا في الشابة."

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144202200277

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں