بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹے کا نام محمد نوح، محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ، ابان یا ریان رکھنے کا حکم


سوال

 اللہ تعالیٰ نے بیٹے کی نعمت سے نوازا ہے اور میں اس کا نام "محمد نوح"  رکھنا چاہتا ہوں، مگر گھر والے کہہ رہیں کہ اس نام کی بے ادبی ہوگی، آپ "عبد النافع"  اور "عبد الرافع"  رکھ لیں۔  مگر ہمارے خاندان میں اسماء حسنی کے ساتھ عبد نہیں لگاتے  اور جو لگاتا ہے اس کا بھی مزاق اڑاتے ہیں،  میں نے اس  لیے منع کردیا. اب میں نے روایت سنی "محمد"  نام رکھنے کی فضیلت کے حوالے سے تو میں نے ایک کا نام "محمد"  اور دوسرے کا "احمد"  یا ایک کا نام "محمد مصطفی"  اور دوسرے کا "احمد مجتبی"  رکھنے کی تجویز پیش کی، مگر گھر والوں نے اس کو رد کردیا کہ اگر بچہ جھوٹ بولے گا تو کہیں گے کہ "محمد"  نے جھوٹ بولا  (نعوذ باللہ)  اب کہہ رہے ہیں کہ ایک کا "ابان"  اور دوسرے کا  "ریان"  رکھ دیں۔  اور میں یہ چاہتا ہوں انبیاء یا صحابہ کے نام کی نسبت ہونی چاہیے، میرے  لیے کوئی مفید مشورہ؟ 

جواب

’’محمد‘‘ اور ’’احمد‘‘  نام رکھنا جائز،  بلکہ باعثِ برکت وفضیلت ہے،  باقی  ”محمد“ یا ’’محمد نوح‘‘ یا ’’محمد مصطفیٰ‘‘ یا ’’احمد مجتبیٰ‘‘ نام والے بچے کو تنبیہ کی غرض سے ڈاٹنے وغیرہ سے یا برا بھلا کہنے سے آپ ﷺ کی بے ادبی لازم نہیں آئے گی، بلکہ اس سے مراد وہی بچہ ہوگا جس کا یہ نام رکھا گیا ہے۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ بچے کو تنبیہ کرتے ہوئے بھی تہذیب اور اسلامی آداب وتعلیمات کی رعایت ضروری ہے، نام بگاڑنا یا گالم گلوچ یا غیر شائستہ گفتار ویسے بھی شرعاً منع ہے۔ فقط واللہ اعلم

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر جامعہ کا فتوی ملاحظہ فرمائیں:

محمد نام رکھنے کا حکم اور اس کی فضیلت

باقی اگر آپ بچے کا نام ’’اَبَان‘‘ یا ’’رَیَّان‘‘  رکھنا چاہیں تو یہ دونوں نام رکھنا بھی درست ہے۔

’’اَبَان‘‘ (ہمزہ اور باء پر زبر ہے، نیز باء پر تشدید نہیں ہے)  کے معنی  صاف اور  واضح چیز  کے ہیں، یہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے  صاحب زادےکا نام تھا اور ان کے علاوہ دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کا بھی نام تھا۔  من جملہ ان صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے ایک حضرت ابان بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ بھی ہیں، جن کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں عبد مناف پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے، سابقین اولین میں سے اور بڑی فضیلت والے صحابی ہیں۔ 

اور ’’ریان‘‘: "را" کے زبر، "یا" کی تشدید اور زبر کے ساتھ ہے، اس کا معنی "سیراب کرنے والا "ہے، "ریان" جنت کا ایک خاص دروازہ ہے جس سے صرف روزہ دار داخل ہوں گے۔

الإصابة في تمييز الصحابة (4/ 37):

"مات سنة ثمانين عام الجحاف، وهو سيل كان ببطن مكة جحف الحاجّ، وذهب بالإبل، وعليها الحمولة، وصلى عليه أبان بن عثمان وهو أمير المدينة حينئذٍ لعبد الملك بن مروان، هذا هو المشهور".

الإصابة في تمييز الصحابة (1/ 168):

"أبان بن سعيد بن العاص [ (3) ] بن أمية بن عبد مناف القرشي الأموي. قال البخاريّ، وأبو حاتم الرّازيّ، وابن حبّان: له صحبة، وكان أبوه من أكابر قريش، وله أولاد نجباء، أسلم منهم قديماً خالد، وعمرو". 

''  عن سهل بن سعد رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: « إن في الجنة باباً يقال له: "الريان"، يدخل منه الصائمون يوم القيامة، لايدخل معهم أحد غيرهم، يقال: أين الصائمون؟ فيدخلون منه، فإذا دخل آخرهم أغلق فلم يدخل منه أحد »''.

(صحیح مسلم،باب فی فضل الصیام:۳ /۱۵۸،رقم الحدیث:۲۷۶۶،دارالجیل بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200530

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں