بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیعت کرنا بدعت نہیں ہے


سوال

اہل نسبت علمائےکرام وبزرگان سے بیعت کرنے کا کیا حکم ہے کیا بیعت بدعت ہے؟ تفصیل سے بتادیں۔

جواب

واضح رہےکسی عالم باعمل کے ہاتھ پر جو اصلاح کا خوب اچھی طرح تجربہ رکھتا ہے، اس کے ہاتھ پر بیعت ہونا، یعنی اپنے اخلاق رذیلہ کو نکالنے اوراخلاقِ حسنہ کو پیدا کرنے کے لیے بیعت ہونا مستحب ہے۔

کفایت المفتی میں ہے:

"بیعت صرف استحباب کا درجہ رکھتا  ہے."

(کتاب السلوک و الاحسان ،ج3،ص308، ط:ادارہ الفاروق)

بیعت کی قرآن و حدیث میں بہت سی مثالیں موجود ہیں، کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور حضرات صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر جیسے اسلام، جہاد، خلافت پر بیعت کی، اسی طرح طاعات بجالانے اور مختلف معاصی سے اجتناب کرنے کا عہد بھی کیا۔

 قرآن پاک میں ہے:

"يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰ أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ ۙ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ  إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ".

(سورۃ ممتحنہ ،آیت :12)

"ترجمہ: اے پیغمبر جب مسلمان عورتیں آپ کے پاس (اس غرض سے) آویں کہ آپ سے ان باتوں پر بیعت کریں کہ اللہ کے ساتھ کسی شے کو شریک نہ کریں گی اور نہ چوری  کریں گی اور  نہ بدکاری کریں گی اور نہ اپنے بچوں کو قتل کریں گی اور نہ بہتان کی (اولاد)  لاویں گی جس کو اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان (نطفہ شوہر سے جنی ہوئی دعویٰ کرکے) بنالیویں  اور مشروع باتوں میں وہ آپ کے خلاف نہ  کریں گی تو آپ ان کو بیعت کرلیا  کیجیے اور ان کے  لیے اللہ سے مغفرت طلب کیا  کیجیے بیشک اللہ غفوررحیم ہے. "(بیان القرآن)

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آنے والی یہ عورتیں پہلے سے مشرف بہ اسلام تھیں، جہاد وغیرہ کا بھی موقع نہ تھا لہذا معلوم ہوا یہ کہ بیعت  بیعت طریقت تھی۔

نیز اسی طرح کئی احادیث سے بھی بیعت کا ثبوت ملتا ہے،چنانچہ بخاری شریف میں حضرت جریر بن عبداللہ سے روایت ہے فرماتے ہیں ،کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز قائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی، اسی طرح بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے فرماتے ہیں، کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سمع واطاعت (یعنی آپ کی ہر بات  ماننے  اور اس پر عمل کرنے) پر بیعت کی۔ لہذا بیعت کا ثبوت قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ البتہ بیعت ہونا فرض یا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے، البتہ دین کے راستہ پر چلنا اور نفس کا تزکیہ اور اصلاح کرانا فرض ہے۔ اور کسی متبع سنت و شریعت پیر سے بیعت ہونا اسی اصلاح کا ایک ذریعہ ہے۔ 

قرآن پاک کی آیت مبارکہ اور احادیث سے یہ بات ثابت ہے ، کہ بیعت کرنا بدعت نہیں ہے۔

بخاری شریف میں ہے:

"حدثنا مسدد قال: حدثنا يحيى، عن إسماعيل قال: حدثني قيس بن أبي حازم، عن جرير بن عبد الله قال: بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم على إقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، والنصح لكل مسلم."

(‌‌كتاب الإيمان، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم الدين النصيحة لله ولرسوله ولأئمة المسلمين وعامتهم وقوله تعالى {إذا نصحوا لله ورسوله}، 32/1، ط: دار ابن كثير)

وفیہ ایضاً:

"حدثنا عبد الله بن يوسف: أخبرنا مالك، عن عبد الله بن دينار، عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال:كنا إذا ‌بايعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة يقول لنا: (فيما استطعتم)."

(كتاب الأحكام، باب: كيف يبايع الإمام الناس، 2633/6، ط: دار ابن كثير)

واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101528

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں