بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیت اللہ کو سن دو ہجری میں قبلہ قرار دیا گیا


سوال

بیت اللہ کو کس سن ہجری  میں قبلہ قرار دیا گیا؟

جواب

واضح رہے کہ اس بارے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اختلاف ہے کہ   حضور اکرم صلی  اللہ علیہ وسلم کا مکرمہ میں قبلہ بیت المقدس تھا یا مکہ مکرمہ میں بھی قبلہ بیت اللہ ہی تھا اور ہجرت کے بعد  بیت المقدس کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا۔ پہلا قول حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا ہے اور دوسرا قول دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ہے، تاہم دونوں اقوال کی صورت میں ہجرت کے سولہ یا سترہ ماہ بعد یعنی سن دو ہجری میں  مستقل طور پر  بیت اللہ کو قبلہ قرار دیا گیا۔

قرآن کریم میں ہے:

"قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ْۚ[البقرة:144]

تفسیر قرطبی میں ہے:

"قال العلماء: هذه الآية مقدمة في النزول على قوله تعالى:" سيقول السفهاء من الناس". ومعنى" تقلب وجهك": تحول وجهك إلى السماء، قاله الطبري. الزجاج: تقلب عينيك في النظر إلى السماء، والمعنى متقارب. وخص السماء بالذكر إذ هي مختصة بتعظيم ما أضيف إليها ويعود منها كالمطر والرحمة والوحي. ومعنى" ترضاها" تحبها. قال السدي: كان إذا صلى نحو بيت المقدس رفع رأسه إلى السماء ينظر ما يؤمر به، وكان يحب أن يصلي إلى قبل الكعبة فأنزل الله تعالى:" قد نرى تقلب وجهك في السماء". وروى أبو إسحاق عن البراء قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى نحو بيت المقدس ستة عشر شهرا أو سبعة عشر شهرا، وقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحب أن يوجه نحو الكعبة، فأنزل الله تعالى:" قد نرى تقلب وجهك في السماء". وقد تقدم هذا المعنى والقول فيه، والحمد لله."

(ج:2، ص:158، ط:دار الكتب المصرية)

معارف القرآن میں ہے:

’’حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر جب نماز فرض کی گئی تو بقول بعض علماء ابتداء آپ کا قبلہ آپ کے جدامجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قبلہ یعنی خانہ کعبہ ہی قراردیاگیا، مکہ مکرمہ سے  ہجرت کرنے اور مدینہ طیبہ میں قیام کرنے کے بعد اور بعض روایات کے اعتبار سے ہجرت مدینہ سے کچھ پہلے آپ کو اللہ تعالی کی طرف سے یہ حکم ہوا کہ آپ بیت المقدس کو اپنا قبلہ بنائیے، صحیح بخاری کی روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سولہ سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف نماز ادا فرمائی مسجد نبوی میں آج تک اس کی علامات موجو د ہیں، جہاں کھڑے ہوکر آپ نے بیت المقدس کی طرف نمازیں ادا فرمائی تھیں۔‘‘

(ج:1، ص:362، ط: مکتبہ معارف القرآن کراچی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144311101267

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں