بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک سے لون لینے کاحکم


سوال

 زید ایک سرکاری ملازم ہے جسکی آمدنی ماہانہ ایک لاکھ روپے ہے، زید کے پاس ایک زمین ہے جس پر وہ مکان تعمیر کرنا چاہ رہا ہے، جس پر کل خرچ تقریبًا اسی لاکھ روپے ہو رہا ہے، جس کی بیک وقت ادائیگی زید کے لیے نا ممکن ہے اور اگر اتنی رقم جمع کرنے کے لئے دس سال انتظار کیا جائے پھر رقم جمع ہونے کے بعد مکان تعمیر کی جائے تو اس کی قیمت اسی لاکھ کے بجائے ڈیڑھ کروڑ ہو جائے گی، تو ایسی صورت میں ستر لاکھ جو کہ بے جا خرچ ہو رہے ہیں اس سے بچنے کے لئے زید ابھی بینک سے اسی لاکھ کا لون لے کر گھر کی تعمیر کر سکتا ہےیا نہیں؟

جواب

کوئی  بھی بینک بغیر سود لیے قرضہ فراہم نہیں کرتا، بینک سے  قرضہ لینے کی صورت میں سود کا معاہدہ کرنا پڑتا ہے اور سود ی لین دین حرام ہے،   اس لیے کسی بھی بینک  سے گھر بنانے کےلیے سودی قرض لینا جائز نہیں ہے   ،ہاں اگر غیر سودی قرضہ مل جائے تو وہ لینا جائز ہو گا ۔

مسلم شریف میں ہے:

"عن جابر، قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌آكل ‌الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه وقال: هم سواء."

(کتاب المساقاۃ، باب لعن آكل الربا ومؤكله، 1219/3، ط: دارإحیاءالتراث العربي)

ترجمہ:" حضرت جابر  رضی اللہ عنہ  سے روایت  ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے ، کِھلانے والے ، سودی معاملہ لکھنے والے اور سودی معاملے کے گواہ بننے والوں پر لعنت فرمائی ہے، اور فرمایا کہ  یہ سب (گناہ میں) برابر (کے شریک) ہیں۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100265

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں