میں اگر بائیکیا یا کسی ایپلیکیشن سے کوریئر سروس کے طور پر کوئی پارسل بھیجتا ہوں تو سروس دینے والے ادارے کی طرف سے اس پارسل کی ویلیو پوچھی جاتی ہے۔ جتنی ویلیو کا پارسل ہوگا، اتنی رقم انشورنس کی لگ جاتی ہے جس میں ہمیں انشورنس ہٹانے کا اختیار نہیں۔ مثلاً پانچ ہزار روپے کا پارسل ہے تو سو روپے انشورنس۔ دس ہزار کا ہے تو دو سو روپے انشورنس۔ اب اس طرح پارسل بھیجنے کا کیا حکم ہے ، جس میں ہم غیر اختیاری طور پر انشورنس کی فیس دے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ اگر مذکورہ کمپنی انشورنس کی مد میں جبراً پیسے لیتی ہے اور سائل کو انشورنس ہٹانے کا اختیار بھی نہیں ہے تو اس صورت میں سائل کے لیے پارسل بھیجنا جائز ہے اور انشورنس کا گناہ کمپنی پر ہوگا ، البتہ پارسل ضائع ہونے کی صورت میں انشورنس کی مد میں ملنے والی اضافی رقم سود ہے، سائل کے لیے اس رقم کا لینا جائز نہیں ، بلکہ صرف اپنی جمع کی ہوئی رقم واپس لے سکتا ہے،نیز سائل کو چاہیے کہاگر ایسی کمپنی کی خدمات میسر ہوں جو انشورنس نہیں کراتیں تو ان ہی کے ساتھ معاملات کرے ۔
حدیث مبارک میں ہے:
"عن جابر قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم أكل الربا، وموكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال: هم سواء۔"
(صحیح مسلم، کتاب المساقات،ج۳،ص۱۲۱۹ط؛، دار احیاء التراث ، بیروت)
الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:
"(قوله لأنه يصير قمارا) لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."
(کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۶،ص۴۰۳،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604101556
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن