بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیع قبل القبض اور قیمت ادا کرنے سے پہلے مال بیچنے کا حکم


سوال

سوال نمبر 1۔ تجارت کا مال اگر کوئی لاہور میں کسی پارٹی سے خریدا جائے یعنی کسی مینو فیکچر وغیرہ سے خریدا جائے اور مال وہاں سے بلٹی ہوا ہو اور آنے میں یعنی کہ لاہور سے کراچی آنے میں پانچ یا چھ دن لگے ہیں اور اسی دوران اگر کراچی میں کسی دکان دار پر وہ مال فروخت کرتا ہے جب کہ مال اس کے پاس اس وقت تک نہیں پہنچتا ہے تو کیا یہ خرید و فروخت جائز ہے؟

سوال نمبر 2۔ اگر لاہور میں کسی کمپنی سے مال خریدا وہ مال کمپنی سے اس بنیاد پر خریدا ہوا ہے کہ کمپنی کو 25  سے 30 دن میں پیمنٹ ادا کرے گا  اگر وہ بندہ اس مال کو ٹائم پر یا نقد فروخت کرسکتا ہے یانہیں؟ یعنی کمپنی کو پیسے ادا کرنے سے پہلے مال آگے فروخت کرسکتے ہیں قبضہ کے بعد؟

جواب

1۔واضح رہے کہ منقولی اشیاء پر قبضہ کرنے سے پہلے  اس کو آگے فروخت کو فروخت  کرنا جائز نہیں، لہذا لاہور سے مال خریدنے کے بعد اگر خریدار یا اس کے کسی وکیل نے مال پر قبضہ نہ کیا ہو اور فروخت کرنے والوں نے اپنی ذمہ داری پر بلٹی کرایا ہو تو جب تک مال خریدار تک نہیں پہنچے گا اس کا قبضہ شمار نہیں ہوگا، ایسی صورت میں اس مال کی آگے خرید فروخت جائز نہیں، البتہ وعدہ بیع کرسکتے ہیں کہ اس کوالٹی کا اتنا مال اس قیمت پر آپ کو فروخت کریں گے پھر جب مال قبضے میں آجائے تو سودا کر لیا جائے۔

2۔ بیع کے مکمل ہونے کے بعد جب خریدار کے قبضے میں مال آجائے تو اس کو آگے بیچنا جائز ہے اگر چہ خریدار نے ابھی تک بیچنے والے کو مکمل قیمت ادا نہیں کی ہو، لہذا خریدار جب مال پر قابض ہوجائے تو اس کے لیے اس مال کو نقد یا ادھارفرخت کرنا جائز ہے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(بيع عقار لا يخشى هلاكه قبل قبضه  لا بیع منقول  ) قبل قبضه ولو من بائعه"۔

(فصل فی التصرف فی المبیع، ص:147، ج:5، ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وإذا وجدا لزم البيع) بلا خيار إلا لعيب أو رؤية خلافا للشافعي"۔  

(کتاب البیوع، ص:528، ج:4، ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وأما حكمه فثبوت الملك في المبيع للمشتري وفي الثمن للبائع إذا كان البيع باتا"۔

(کتاب البیوع، ص:2،3، ج:3، ط:رشیدیه)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144307101902

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں