بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیع قبل القبض کا حکم


سوال

 ایک گاہک دکان دار سے کہتا ہے کہ اگر میں ایک چیز لیتا ہوں، تو اس کی قیمت سو روپیہ ہے، لیکن میں دس چیزیں لیتا ہوں، تو مجھے ایک چیز نوے (90) روپے میں دیں، دکاندار کہتا ہے؛ ٹھیک ہے، اب گاہک خود وہ دس چیزیں نہیں خریدتا، بلکہ کوئی اور گاہک ڈھونڈ کر لاتا ہے، اور دکاندار سے کہتا ہے آپ اس کو دس چیزیں ہزار کی دیں، اور جو آپ نے مجھے نوے روپے میں دینے کا کہا اس کا جو سو روپیہ بچتا ہے، مجھے دیں، اب یہ سو روپیہ جو لے رہا ہے، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سامان پر قبضہ کیے بغیر آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہے ، کیوں کہ یہ بیع قبل القبض ہے،اور بیع قبل القبض جائز نہیں،یعنی جب تک سامان پر قبض کا تحقق نہیں ہوتا ،تو اس کو آگے فروخت کرنا جائز نہیں ،لہذا سائل کے لیےمذکورہ صورت میں 100روپے منافع لینا جائز نہیں،  سائل کو چاہیےکہ  مذکورہ اشیاء کو قبضہ و ملکیت میں لا کر ،پھر آگے دوسرے شخص پرفروخت کرے،اگر چہ مذکورہ اشیاء کی مکمل  قیمت ادا نہ کر سکا ہو،نیز اگر وہ قیمت پہلےادا نہیں کرتا یاقیمت کی ادائیگی سے پہلے دکاندار اس کو قبضہ نہیں دیتا،تو اس کی یہ صورت بھی اختیار کی جاسکتی ہےکہ وہ دکاندار  سے کہےکہ میں آپ کی دس چیزیں بکوادوں گاتو آپ اس کے بدلے مجھے سو روپے کمیشن دے دیں،تو یہ معاملہ درست ہوگا   ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(بيع عقار لا يخشى هلاكه قبل قبضه  لا بیع منقول  ) قبل قبضه ولو من بائعه."

(فصل فی التصرف فی المبیع، ص:147 ج:5 ط: سعید)

و فیہ ایضاً:

"قال في التتارخانية: ‌وفي ‌الدلال ‌والسمسار ‌يجب ‌أجر ‌المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة."

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، مطلب في استئجار الماء مع القناة واستئجار الآجام والحياض للسمك،

ج: 6 ص:63 ط: سعید)

تبین الحقائق میں ہے:

"قال رحمه الله (لا بيع المنقول) أي لا يجوز بيع المنقول قبل القبض لما روينا ولقوله عليه الصلاة والسلام «إذا ابتعت طعاما فلا تبعه حتى تستوفيه» رواه مسلم وأحمد ولأن ‌فيه ‌غرر ‌انفساخ ‌العقد على اعتبار الهلاك قبل القبض؛ لأنه إذا هلك المبيع قبل القبض ينفسخ العقد فيتبين أنه باع ما لا يملك والغرر حرام لما روينا."

(کتاب البیوع، باب التولية، فصل بيع العقار قبل قبضه، ج:4 ص:80  ط: رشیدیه)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144502100441

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں