بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیع مکمل ہونے کے بعد قبضہ نہ دینا


سوال

فیڈرل بی ایریا st.2 بلاک نمبر 10 میں دو ایکڑ کا ایک پلاٹ تھا جو کہ KDA کی ملکیت تھا۔ 1995 میں KDA دو ایکڑ پلاٹ کے 120 گز کے 72 پلاٹ کاٹے اور تمام پلاٹوں کو نیلامی کے ذریعے عوام کو فروخت کردیا، اس کے خریدار اکثر اسی علاقے کے باشندے ہیں۔ اِسی دوران KMC  نے یہ دعوی کیا کہ یہ دو ایکڑ کا پلاٹ KMC  کا ہے،  یہ مقدمہ محتسب کی عدالت میں دائر کیا گیا، عدالت نے یہ فیصلہ سنایا کہ یہ دو ایکڑ کا پلاٹ KDA  کی ملکیت ہے، پھر خریداروں نے قیمت کی ادائیگی KDA  کو کردی ہے، لیکن KDA  والے ان لوگوں کو قبضہ نہیں دے رہے ہیں، کچھ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ علاقے کے بعض با اثر لوگ جن میں چند لوگ KMC کے بھی شامل ہیں  KDA والوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ خریداروں کو قبضہ نہ  دیا جائے، پھر محتسب کی عدالت میں یہ مقدمہ دائر کیا گیا، محتسب کی عدالت نے حکم جاری کیا کہ دو ماہ میں خریداروں کو قبضہ دیا جاے، مگر پھر بھی وہ قبضہ نہیں دے رہے۔ دریافت یہ کرنا ہے کہ کیا KDA  اور علاقے کے بعض بااثر حضرات جن میں چند KMC کے لوگ بھی شامل ہیں کا مذکورہ عمل شرعاً درست ہے؟ کیا یہ شرعاً ظلم میں داخل نہیں ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً مذکورہ زمین KDA کی ملکیت تھی اور اس نے اس زمین کے پلاٹ بناکر لوگوں کو فروخت کردیے تھےاور خریداروں نے اس کی  قیمت بھی KDA کو ادا کردی ہے تو KDA  کی انتظامیہ پر لازم ہے کہ مذکورہ زمین خریداروں کو دے دیں، KDA کے افسران کے لیے جائز نہیں کہ وہ بغیر کسی شرعی وجہ کے اسے اپنے پاس روکے رکھیں، ایسا کرنا شرعاً ظلم اور ناجائز ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:جس کسی نے ایک بالشت زمین نا حق لی، قیامت کے دن سات طبقے زمین اس کے گلے میں طوق بنا دیئے جائیں گے۔

 صحيح مسلم ميں ہے:

عن سعيد بن زيد، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «‌من ‌أخذ ‌شبرا من الأرض ظلما، فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»

(صحیح مسلم، باب تحریم الظلم وغصب الأرض وغیرھا، ص:33، ج:2، ط: قدیمی)

مسند احمد میں ہے: 

عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: کنت آخذاً بزمام ناقة رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه و سلم في أوسط أیام التشریق أذود عنه الناس، فقال: یا أیها الناس! ألا لاتظلموا ، ألا لاتظلموا، ألا لاتظلموا، إنه لایحل مال امرئ إلا بطیب نفس منه‘‘.

(مسند أحمد، حدیث عم أبي حرة الرقاشي، رقم الحدیث: 20695، ج34:، ص:299،  ط:مؤسسة الرسالة) 

مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:

(المادة 278) في البيع بالثمن الحال أعني غير المؤجل للبائع أن يحبس المبيع إلى أن يؤدي المشتري جميع الثمن

(‌‌الفصل الثاني: في المواد المتعلقة بحبس المبيع، ‌‌الباب الخامس: في بيان المسائل المتعلقة بالتسليم والتسلم، الکتاب الأول في البیوع، ص:54، ط:نور محمد)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144304100458

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں