بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الاول 1446ھ 11 ستمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بیع مؤجل میں اجل مجہول ہونے سے بیع فاسد ہوجاتاہے


سوال

میں نےاپنی والدہ کامکان تقریباً دوڈھائی سال پہلےاپنےبہن بھائیوں کی رضامندی سےخریداتھا، بھائیوں کوحصہ دےدیاگیا، اوربہنوں سےیہ طےپایاتھاکہ جیسےجیسےمجھےآسانی ہوگی میں اداکرتی رہوں گی، اب بہنوں  میں سےایک بہن کاانتقال ہوگیاتوان کےحصےکی ادائیگی کاطریقہ کیاہے؟جب کہ ان ورثاء میں شوہردوبیٹےاورایک بیٹی ہیں ، بیٹی اورایک بیٹابالغ ہیں اوردوسرابیٹا14سال کاہے، نیزیہ ملحوظ رہےکہ کچھ رقم کی ادائیگی میں کرچکی ہوں۔

وضاحت:بہنوں سےیہ جوطےہواتھاکہ جیسےجیسےمجھےآسانی ہوگی میں اداکرتی رہوں گی، یہ بات ثمن طےہونےسےپہلےبھی ہوئی تھی،  اور ثمن طےہونےکےوقت یعنی باقاعدہ سوداہوتےوقت بھی یہ بات  دہرائی گئی تھی۔

جواب

واضح رہےکہ ادھارسودامیں  ثمن /قیمت کی تعیین کےساتھ اس کی ادائیگی کاوقت متعین کرناضروری  ہے، اگرادائیگی کاوقت معلوم ومتعین نہ کیاجائےتوپھروہ سوداشرعاًفاسد شمارہوگا۔

لہذاصورتِ مسئولہ میں سائلہ اپنی بہن کےترکہ کاجوحصہ ادھارپرخریداجس کی ادائیگی کی مدت اورشیڈول متعین نہیں کیاتھا،بلکہ یہ طےہواتھاکہ جیسےجیسےمجھےآسانی ہوگی میں اداکرتی رہوں گی تویہ سودابہنوں کےحصےمیں فاسد ہے، کیوں کہ ان کےساتھ جوسوداہواتھا، وہ ادھارکاسوداتھاجب کہ  ثمن/قیمت کی ادائیگی کی مدّت طےنہ ہوئی تھی کہ کتنی مدّت (مثلاً:ایک سال یادوسال) میں اداکی جائےگی،  اس لیےضروری ہےکہ بہنوں کےحصےسوداکوختم کرکےدوبارہ مدت کی تعیین کےساتھ باہمی رضامندی سےنئےسرےسےسودامرحومہ بہن کےورثاءسے کیاجائے، پھرسائلہ کی مرحومہ بہن کےحصےکی جورقم ہوگی وہ ان کےورثاء میں اس طورپرتقسیم ہوں گی کہ اس کو20حصوں میں تقسیم کرکے5حصےمرحومہ کےشوہر کو، 6حصے مرحومہ کےہربیٹےکواور3حصےمرحومہ کی بیٹی کوملیں گے،  یعنی100فیصد میں سے25فیصد مرحومہ کےشوہرکو، 30فیصدمرحومہ کےہربیٹےکواور15فیصد مرحومہ کی بیٹی کوملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت:20/4

شوہربیٹابیٹابیٹی
13
5663

ملحوظ رہےکہ مرحومہ کاجویٹا14سال کاہےاس کےحصےکی رقم بچےکےبلوغ تک حفاظت کےلیے اس کےوالد کی ولایت میں ہوگی۔

تفسیرقرطبی میں ہے:

"فيه عشر مسائل: الأولى- لما أمر الله تعالى بدفع أموال اليتامى إليهم في قوله: (وآتوا اليتامى أموالهم) وإيصال الصدقات إلى الزوجات، بين أن السفيه وغير البالغ لا يجوز دفع ماله إليه."

(سورة النساء (4): آية 5، ج:5، ص:27، ط:دار الکتب المصرية)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وأما شرائط الصحة فعامة وخاصة...وأما الخاصة فمنها معلومية الأجل في البيع بثمن مؤجل فيفسد ان كان مجهولا."

(كتاب البيوع ، الباب الأول في تعريف البيع وركنه وشرطه وحكمه وأنواعه، ج:3، ص:3، ط:دار الفکر)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"التركة لغة: ما يتركه الشخص ويبقيه...وهي عند الحنفية: الأموال والحقوق المالية التي كان يملكها الميت. فتشمل الأموال المادية من عقارات ومنقولات وديون على الغير۔"

(‌‌الباب السادس: الميراث، السادس ـ الحقوق المتعلقة بالتركة، 7725/10، ط:دار الفکر)

احسن الفتاویٰ میں ہے:

"سوال :کسی نےکوئی چیزخریدی اورکہاکہ پیسےبعدمیں دونگااوروقت مقررنہیں کیاتوجائز ہےیانہیں؟

جواب:اگرخریدنےکےبعدیہ الفاظ کہےاوربائع نےبخوشی مہلت دیدی توجائزہےاوراگرادھارکی شرط پرخریداتوبلاتعیین وقت اداء جائزنہیں۔"

(کتاب البیوع، 504/6، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511102744

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں