بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بائع کا وکیل کو ثمن میں سے کچھ ہبہ کرنا


سوال

ایک اجیر خاص کو اس کے مالک نے مال خریدنے کےلیے بھیجا تو مال بیچنے والے نے اجیرِ خاص سے کہا کہ میں آپ کو مال مثلاً  ایک سو پانچ روپے میں دیتا ہوں ، جس میں پانچ روپے آپ کے  ہیں،جب کہ سو روپے آپ کے مالک کے ، لیکن اگر آپ پانچ روپے نہ لینا چاہو تو میں وہ مال  آپ کے مالک کو ایک سو پانچ روپے  میں دوں گا،کیا اجیرِ ِ خاص کے لیے  یہ پانچ روپے لینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اجیر خاص کےلیے مذکورہ رقم لینا درست نہیں ، اگر مال بیچنے والا شخص اس کو مذکورہ رقم دے دیتا ہے تو وہ رقم اجیرِ خاص کے مالک  کی  ہوگی ،لہذا اگر اجیرِ خاص وہ رقم لے چکا ہے تو اس کےذمہ لازم ہے کہ وہ اپنے مالک کو اد ا کردے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

ولو وهب البائع بعض الثمن عن الوكيل يظهر ذلك في حق الموكل حتى لم يكن للوكيل أن يرجع على الموكل بذلك القدر

 (كتاب الوكالة، الباب الثالث في الوكالة بالبيع:3/ 588،ط:دار الفكر)

البحرالرائق میں ہے:

ولو أمر رجلا أن يشتري له جارية بألف فاشتراها ثم إن البائع وهب الألف من الوكيل فللوكيل أن يرجع على الآمر ولو وهب منه خمس مائة لم يكن له أن يرجع على الآمر۔۔۔۔۔۔ولو وهب منه خمس مائة ثم وهب منه أيضا الخمس مائة الباقية لم يرجع الوكيل على الآمر إلا بالخمس مائة الأخرى لأن الأول حط والثاني هبة

(كتاب الوكالة،باب الوكالة بالبيع والشراء:7/ 155،ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100039

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں