بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیعت طریقت کا ثبوت قرآن وحدیث کی روشنی میں


سوال

کیا قران و حدیث کی روشنی میں بیعت کا ثبوت ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ بیعت کی حقیقت یہ ہے کہ کسی صالح ومتدین بزرگ کے سامنے اپنے گناہوں سے توبہ کرنا اور نفس کو رذائل سے پاک کرنے اور فضائل سے مزین کرنے کا عہد کرنا ہے۔

قرآن و حدیث میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور حضرات صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر جیسے اسلام، جہاد، خلافت پر بیعت کی، اسی طرح طاعات بجالانے اور مختلف معاصی سے اجتناب کرنے کا عہد بھی کیاچنانچہ سورۃ ممتحنہ میں ہے:

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰ أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ ۙ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ  إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ 

"ترجمہ: اے پیغمبر جب مسلمان عورتیں آپ کے پاس (اس غرض سے) آویں کہ آپ سے ان باتوں پر بیعت کریں کہ اللہ کے ساتھ کسی شے کو شریک نہ کریں گی اور نہ چوری  کریں گی اور  نہ بدکاری کریں گی اور نہ اپنے بچوں کو قتل کریں گی اور نہ بہتان کی (اولاد)  لاویں گی جس کو اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان (نطفہ شوہر سے جنی ہوئی دعویٰ کرکے) بنالیویں  اور مشروع باتوں میں وہ آپ کے خلاف نہ  کریں گی تو آپ ان کو بیعت کرلیا  کیجیے اور ان کے  لیے اللہ سے مغفرت طلب کیا  کیجیے بیشک اللہ غفوررحیم ہے۔ "

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آنے والی یہ عورتیں پہلے سے مشرف بہ اسلام تھیں، جہاد وغیرہ کا بھی موقع نہ تھا لہذا معلوم ہوا یہ کہ بیعت  بیعت طریقت تھی۔

نیز اسی طرح کئی احادیث سے بھی بیعت کا ثبوت ملتا ہےچنانچہ بخاری شریف میں حضرت جریر بن عبداللہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز قائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی، اسی طرح بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سمع واطاعت (یعنی آپ کی ہر بات  ماننے  اور اس پر عمل کرنے) پر بیعت کی۔ لہذا بیعت کا ثبوت قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ البتہ بیعت ہونا فرض یا واجب نہیں بلکہ سنت ہے، البتہ دین کے راستہ پر چلنا اور نفس کا تزکیہ اور اصلاح کرانا فرض ہے۔ اور کسی متبع سنت و شریعت پیر سے بیعت ہونا اسی اصلاح کا ایک ذریعہ ہے۔ 

بخاری شریف میں ہے:

"عن جرير بن عبد الله، قال: بايعت ‌رسول ‌الله صلى الله عليه وسلم على إقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، والنصح لكل مسلم".

(كتاب الصلاة، باب البيعة على اقام الصلاة، ج:1، ص:111، ط:دار طوق النجاة)

وفیہ ایضاً:

"عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، قال: كنا إذا ‌بايعنا ‌رسول ‌الله صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة".

(کتاب الاحكام، باب: كيف يبايع الإمام الناس، ج:9، ص:77، ط:دار طوق النجاة)

شفاء العلیل میں ہے:

"بیعت سنت ہے، واجب نہیں، اس واسطے کہ اصحاب رضی اللہ عنہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے بیعت کی اور اُس کے سبب سے حق تعالیٰ کی نزدیکی چاہی اور کسی دلیلِ شرعی نے تارکِ بیعت کے گنہگار ہونے پر دلالت نہ کی اور ائمہ دین نے تارکِ بیعت پر انکار نہ کیا، تو یہ عدمِ انکار گویا اجماع ہوگیا اس پر کہ وہ واجب نہیں".

(شفاء العلیل ترجمہ القول الجمیل، ص:18، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507101470

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں