بیع صرف میں عوضین پر قبضہ کیوں ضروری ہے؟
حدیث میں ہے اگر سونے کی بیع سونے کے عوض یا چاندی کی بیع چاندی کے عوض ہو یعنی عقد صرف ہو تو عوضین پر جدا ہونے سے پہلے قبضہ کرنا شرط ہے،موطأامام مالک کی حدیث ہے "لا تبيعوا منها شيئا غائبا بناجز" یعنی اموالِ ربویہ میں سے غائب کو نقد کے عوض مت فروخت کرو، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اموال ربویہ میں عوضین پر مجلس کے اندر جد ا ہونے سے پہلے پہلے قبضہ کرنا شرط ہے،نیز حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: سونا ، سونے کے عوض فروخت نہ کرو ، مگر برابر،برابر اور چاندی کو سونے کے عوض اس حال میں مت فروخت کرو کہ ایک عوض غیر موجود ہواور دوسرا موجود ہو، اور اگر تجھ سے (تیرا ساتھی ) اس بات کی مہلت مانگے کہ وہ اپنے گھر میں داخل ہوکر( غیر موجود عوض لے آئے )تو اس کو اتنی مہلت بھی نہ دو ، ہاں اگر معاملہ نقدی اور ہاتھ در ہاتھ کے طور پر ہو ( تو کوئی مضائقہ نہیں، اور اس مہلت نہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ )میں تم پر ربوا سے ڈرتاہوں ، یعنی مجھے یہ ڈر ہےکہ گھر تک آنے جانے کی تاخیر سے جو قبضہ دینے میں تاخیر ہوگی ،وہ ربوا اور سود نہ ہوجائے۔
دوسری وجہ یہ ہے: کہ عقد صرف کی صورت میں ایک عوض پر قبضہ کرنا تو اس لیے ضروری ہے تاکہ بیع الکالی با لکالی لازم نہ آئے یعنی ادھار کی بیع ادھار کے عوض لازم نہ آئے، اس لیے کہ شرعاً بیع الکالی بالکالی ناجائز ہے، اور دوسرے عوض پر قبضہ کرنا اس لیے ضروری ہےتاکہ عوضین کے درمیان مساوات اور برابری متحقق ہوجائے، اور ربوا لازم نہ آئے کیوں کہ جس عوض پر قبضہ کرلیا گیاوہ نقد ہوگیا اور جس پر قبضہ نہیں کیا گیا، وہ ادھار ہوگیا، اور قاعدہ ہے ” النقد خیر من النسیئة“( نقد ادھار سے بہتر ہے)،گو نقد کو ادھار پر ایک گونہ فضیلت حاصل ہوتی ہے ، اور ایک عوض کا دوسرے عوض سے افضل ہونا اسی کانام ربوا ہے، اس لیے مساوات (برابری) کے لیے بیع صرف میں عوضین پر قبضہ کرنا ضروری ہے۔
موطأ الإمام مالك میں ہے:
30 - وحدثني عن مالك عن نافع، عن أبي سعيد الخدري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا تبيعوا الذهب بالذهب إلا مثلا بمثل، ولا تشفوا بعضها على بعض، ولا تبيعوا الورق بالورق إلا مثلا بمثل، ولا تشفوا بعضها على بعض، ولا تبيعوا منها شيئا غائبا بناجز»
(کتاب البیوع، باب بيع الذهب بالفضة تبرا وعينا، ج:2، ص:632، ط:دار إحياء التراث العربي، بيروت - لبنان)
المستدرك على الصحيحينمیں ہے:
2342 - حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، ثنا الربيع بن سليمان، ثنا الخصيب بن ناصح، ثنا عبد العزيز بن محمد الدراوردي، عن موسى بن عقبة، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، أن النبي صلى الله عليه وسلم «نهى عن بيع الكالئ بالكالئ» هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجاه " وقيل عن موسى بن عقبة عن عبد الله بن دينار
[التعليق من تلخيص الذهبي] على شرط مسلم
(کتاب البیوع، وأما حديث معمر بن راشد، ج:2، ص:65، ط:دار الكتب العلمية - بيروت)
شرح فتح القدير على الهدايةمیں ہے:
" قال (ولا بد من قبض العوضين قبل الافتراق) لما روينا، ولقول عمر رضي الله عنه: وإن استنظرك أن يدخل بيته فلا تنظره، ولأنه لا بد من قبض أحدهما ليخرج العقد عن الكالئ بالكالئ ثم لا بد من قبض الآخر تحقيقا للمساواة فلا يتحقق الربا، ولأن أحدهما ليس بأولى من الآخر فوجب قبضهما سواء
وفی الفتح: (قوله ولا بد من قبض العوضين قبل الافتراق) بإجماع الفقهاء. وفي فوائد القدوري: المراد بالقبض هنا القبض بالبراجم لا بالتخلية يريد باليد، وذكرنا آنفا أن المختار أن هذا القبض شرط البقاء على الصحة لا شرط ابتداء الصحة لظاهر قوله: فإذا افترقا بطل العقد، وإنما يبطل بعد وجوده وهو الأصح. وثمرة الخلاف فيما إذا ظهر الفساد فيما هو صرف يفسد فيما ليس صرفا عند أبي حنيفة رحمه الله، ولا يفسد على القول الأصح، وقوله (لما روينا) يعني قوله يدا بيد " وكذا ما روينا من حديث البخاري قوله صلى الله عليه وسلم «ولا تبيعوا منها غائبا بناجز» وقول عمر: " وإن استنظرك إلى آخره، رواه مالك في الموطإ عنه قال لا تبيعوا الذهب بالذهب إلا مثلا بمثل، ولا تبيعوا الورق بالذهب أحدهما غائب والآخر ناجز، وإن استنظرك أن يلج بيته فلا تنظره إلا يدا بيد هات وهات، إني أخشى عليكم الربا " وفي رواية قال " الرما " بالميم وهو الربا. ورواه عبد الرزاق وقال: أن يدخل بيته. ولما ثبت نص الشرع بإلزام التقابض علله الفقهاء بما ذكره المصنف، وحله أن للتقدم مزية على النسيئة فيتحقق الفضل في أحد العوضين وهو الربا، ولما كان مظنة أن يقال: هذا غير لازم في قبض العوضين لجواز أن يجعلا معا نسيئة قال: لا بد شرعا من قبض أحد العوضين كي لا يلزم الكالئ بالكالئ: أي الدين بالدين فلو لم يقبض الآخر لزم الربا بما قلنا. وأيضا يلزم الترجيح بلا مرجح لأنهما مستويان في معنى الثمنية، فإذا وجب قبض أحدهما فكذا الآخر لعدم الأولوية."
(کتاب الصرف، ج:7، ص:135، ط:دار الفكر، بيروت)
الدرالمختار مع ردالمحتار میں ہے:
"(بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنسا بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزنا (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) وهو شرط بقائه صحيحا على الصحيح (إن اتحد جنسا وإن) وصلية (اختلفا جودة وصياغة) لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء
وفی الرد: (قوله: لحرمة النساء) بالفتح أي التأخير فإنه يحرم بإحدى علتي الربا."
(باب الصرف، ج:5، ص:259، ط:رشیدیه)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144603102939
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن