بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

"ین" چائنہ کرنسی بطور قرض اس شرط پر لینا کہ دو ماہ بعد فی ین ایک روپے کے اضافے کے ساتھ دوں گا سود ہے


سوال

ہمارے گاؤں میں لوگ چائنا سے مال منگواتے ہیں ،تو ان کو ین (چائینہ کرنسی )میں پیسے ادا کرنے ہوتے ہیں ،اس لیے وہ پاکستانی کرنسی کو ین میں تبدیل کرتے ہیں ،ایک ین تیس روپیہ کا ہے،سوال یہ ہے کہ ایک شخص کو ایک لاکھ ین چاہیے لیکن اس کے پاس اتنے پاکستانی روپیے نہیں ہیں ،وہ ایک شخص سےکہتا ہے  کہ مجھے آپ ایک لاکھ ین دیدو ،میں دو ماہ بعد پاکستانی روپیہ ادا کروں گا ،اور وہ فی ین اکتیس کے حساب سے ادا کروں گا ،کیا ایسا کرنا جائز ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ  قرض  کے بدلہ نفع  کا لین دین کرنا  سود ہے اور سودی لین دین کی قرآن و احادیث میں سخت ممانعت آئی ہے۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ شخص اگر کسی  سے ایک لاکھ ین بطور قرض لیتا ہے،اور دو ماہ بعد فی ین تیس کے بجائے اکتیس کے حساب سے ادا کرنے کا معاہدہ کرتا ہے تو شرعاً ایسا معاہدہ سود  پر مبنی ہونے کی وجہ سے حرام ہو گا   ،بلکہ مذکورہ شخص کو دو ماہ  بعد  ایک لاکھ  ین یااس کے مساوی پاکستانی روپیے  ،جو پاکستانی صرافہ بازار میں ایک لاکھ ین سے ملتے ہوں گے،چاہے فی ین تیس ہو یا اکتیس یا انتیس روپیے ہو  ،وہی اس کو ادا کرنا لازم ہے،البتہ اگرپاکستانی صرافہ بازار میں ین کے مختلف دام ہیں تو اس مارکیٹ میں رائج داموں میں سے کسی ایک دام پر اتفاق کر لینا فریقین کے لیے جائز ہے،مثلاً مارکیٹ میں فی ین انتیس روپے سے اکتیس روپے تک فی ین کے دام ہیں تو فریقین ان داموں میں سے کسی ایک پر اکتفاء کر لیں تو جائز ہے ،اس سے کمی بیشی کرنا سود ہے  ،اگر فریقین کے درمیان کسی ایک پر اکتفاء کرنے پر تنازع ہو جاتا ہے تو اس صورت میں  جو  درمیانی قیمت ہو گی ، اس  کا ادا کرنا لازم ہو گا ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: و كرهت السفتجة) واحدة السفاتج، فارسي معرب، أصله سفتة: وهو الشيء المحكم، سمي هذا القرض به لإحكام أمره كما في الفتح وغيره (قوله: بضم السين) أي وسكون الفاء كما في ط عن الوالي (قوله: وهي إقراض إلخ) وصورتها أن يدفع إلى تاجر مالا قرضا ليدفعه إلى صديقه، وإنما يدفعه قرضا لا أمانة ليستفيد به سقوط خطر الطريق وقيل هي أن يقرض إنسانا ليقضيه المستقرض في بلد يريده المقرض ليستفيد به سقوط خطر الطريق كفاية (قوله: فكأنه أحال ... إلخ) بيان لمناسبة المسألة بكتاب الحوالة اهـ ح.وفي نظم الكنز لابن الفصيح: وكرهت سفاتج الطريق وهي إحالة على التحقيق قال شارحه المقدسي: لأنه يحيل صديقه عليه أو من يكتب إليه (قوله: و قالوا ... إلخ) قال في النهر: وإطلاق المصنف يفيد إناطة الكراهة بجر النفع سواء كان ذلك مشروطا أو لا قال الزيلعي وقيل إذا لم تكن المنفعة مشروطة فلا بأس به اهـ وجزم بهذا القيل في الصغرى والواقعات الحسامية والكفاية للبيهقي وعلى ذلك جرى في صرف البزازية اهـ وظاهر الفتح اعتماده أيضًا، حيث قال: وفي الفتاوى الصغرى وغيرها: إن كان السفتج مشروطا في القرض فهو حرام، والقرض بهذا الشرط فاسد وإلا جاز.وصورة الشرط كما في الواقعات: رجل أقرض رجلا مالا على أن يكتب له بها إلى بلد كذا فإنه لا يجوز، وإن أقرضه بلا شرط و كتب جاز. و كذا لو قال: اكتب لي سفتجة إلى موضع كذا على أن أعطيك هنا فلا خير فيه.وروي عن ابن عباس ذلك ألا ترى أنه لو قضاه أحسن مما عليه لايكره إذا لم يكن مشروطًا، قالوا: إنما يحل ذلك عند عدم الشرط إذا لم يكن فيه عرف ظاهر فإن كان يعرف أن ذلك يفعل كذلك فلا. اهـ"

(کتاب الحوالۃ ،مطلب فی السفتجۃ،ج:5،ص:350،ط:سعید) 

 السنن الكبري للبيہقی ميں ہے:

"عن فضالة بن عبيد صاحب النبى صلى الله عليه وسلم أنه قال:كل قرض جر منفعةً فهو وجه من وجوه الربا."

(باب كل قرض جر منفعۃ فهو ربا:رقم،11037،294/11،هجر للبحوث والدراسات العربيۃ والإسلاميۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100621

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں