بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بائع اور مشتری میں سے کس سے کمیشن لیا جائے؟


سوال

کمیشن لینے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آیا بائع اور مشتری دونوں سے لینا جائز ہے یا کسی ایک سے؟

جواب

واضح رہے كہ  ایجنٹ یعنی دلال اگربائع اور مشتری میں سے کسی کاوکیل نہیں  ہے، اور اس نے بائع  اور مشتری کو آپس میں ملایا اور   ان کے درمیان  واسطے کا کردار ادا کیا، باقی معاملہ  (عقد) بائع اور مشتری نے  آپس میں خود کیا تو ایجنٹ کے لیے بائع اور مشتری دونوں  سے (یعنی جانبین سے) رابطہ کرانے کا متعینہ کمیشن لینا جائز ہے، تاہم اگر ایجنٹ  ان دونوں میں سے کسی ایک کی طرف سے وکیل بن کر معاملہ کرتا ہے تو   پھر جس کی  جانب سے وکیل ہے  صرف اسی سےکمیشن لینا جائز ہے،  دوسرے  سے  کمیشن  لینا جائز نہیں ہے،  کیوں کہ اگر سامان بائع خود نہ بیچے، بلکہ کمیشن ایجنٹ اس کی طرف سے وکیل بن کر سامان فروخت کرے تو ایسی صورت میں کمیشن ایجنٹ "عاقد"  بن  جائے گا، اور عاقد  اس شخص  سے کمیشن نہیں لے سکتا جس سے وہ عقد کررہا ہو، کیوں کہ وہ اس کو کوئی اضافی خدمت فراہم نہیں کررہا، صرف سامان بیچ رہا ہے، لہٰذا اس صورت میں وہ مشتری سے صرف سامان کی قیمت وصول کرنے کا حق دار ہے، کمیشن کا حق دار نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية.

(قوله: فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له. (قوله: يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف جامع الفصولين." 

(كتاب البيوع، فروع فى البيع، ج:4، ص:560، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404101222

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں